ایک کامیاب انسان ہم سے بچھڑ گیا
تحریر: سبحان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مادرِ وطن بلوچستان جسے بلوچوں کی سر زمین کہا جاتا ہے، جس پر پاکستان کے ساتھ ساتھ پُوری دنیا کی نظر ہے،ہم نہیں جانتے کہ ہمارے بلوچستان کو نظر لگ گیا ہے یا ہم بلوچستانیوں کو ہمارے قریبی ایٹمی طاقتیں کھا رہے ہیں۔ صبح نو بجے اٹھتے ہی موبائل فون اُٹھایا اور واٹس آپ پر ایک نیوز دیکھا، وہ نیوز دیکھتے ہی میں دنگ رہ گیا اور مجھے لگا کہ میں ڈراوُنا خواب دیکھ رہا ہوں لیکن پھر خیال آیا کہ خواب تو سُکون کی نیند سونے میں آتی ہے، بلوچستان میں سُکون کی نیند کہاں آتی ہوگی،سُکون کی نیند وہاں آتی ہے جہاں امن ہو،جہاں آزادی ہو ،جہاں لوگوں کے زہن آذاد ہوں لیکن بلوچستان کے آزاد لوگ بلوچستان کے پہاڑوں میں پائے جاتے ہیں جن کے زہن غلامی سے آزاد ہیں جن کی فکر پہاڑ جیسی مضبوط ہے، بنسبت شہر کے لوگوں سے جن کی فکر ایک دھاگے سے بھی کمزور ہے، جو سب کچھ دیکھ کے بھی اندھے ہیں اور ظلم سہنے کے عادی ہیں،نہیں جانتا کہ کب تک سہتے رہینگے۔
خیر میں آتا ہوں اپنی بات پہ جب اس نیوز کو پھر سے دیکھنے کی خُدا نے ہمت دی تو ہم بلوچستان کے لوگ ایک ہونہار آفیسر سے محروم ہوچُکے تھے جس کا نام جمیل بلوچ تھا اور وہ بلوچستان کے علاقے لورلائی میں ڈپٹی کمشنر تھے.جمیل بلوچ ایک سوچ ایک نظریہ ہے اور نظریہ کبھی نہیں مرتا ،جمیل بلوچ ہونہار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسان دوست اور مخلص انسان تھے جو ہر بچے اور بڑے کو ادب سے بیش آتے.جمیل بلوچ اپنے (دس) بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور اُن کا فخر بھی ، جمیل بلوچ جب اسسٹینٹ کمشنر تعینات ہوئے تو اُنھیں پنجاب سے آفر آنے لگے کہ وہ پنجاب کے لوگوں کو انگلش پڑھائے مگر جمیل بلوچ نے انکار کر دیا اور پنجاب کی بجائے اپنے مادرِ وطن بلوچستان کو ترجیح دی کہا کہ مجھے بلوچستان کے بچوں کو پڑھانے کی ضرورت ہے اور بلوچستان کو میری اور اُس نے بلوچستان میں ٹائمز اکیڈمی کے نام سے ادارہ کھول دیا اور انتہائی مُخلصی کے ساتھ پڑھانا شُروع کردیا تاکہ بلوچستان کی عوام اُس سے فائدہ اُٹھا سکے اور الحمدُللہ ۲۰۰ کے قریب بچوں نے جمیل بلوچ کا نام روشن کر کے اچھے مقامات حاصل کر لیئے۔
آج بلوچستان جمیل بلوچ جیسے آفیسر سے محروم ہوگیا۔ چاہے روڈ حادثہ ہو ، یا جوان اُٹھائے جائیں اور انکی لاشیں گرادی جائیں.آخر کب تک ہم یہ ظلم سہتے رہینگے اور جمیل بلوچ جیسے جوان کھو دیتے رہینگے؟
بلوچ دنیا میں غیرت مند قوم کے نام سے جانا جاتا ہے، بلوچ سر قلم کرواسکتا ہے مگر غلامی قبول نہیں کر سکتا خُدارا شکار بننے سے بہتر ہے کہ شکاری بنیں ، ماروگے نہیں تو مارے جاوُگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں