ہسپتال یا قبرستان
تحریر: علی ظفر دہوار
دی بلوچستان پوسٹ
ہسپتال کو انسانیت کے لیے شفاخانہ سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ہسپتالوں کو مقتل گاہ بنا دیا گیا ہے۔ نشتر ہسپتال ملتان میں 500انسانوں کے لاشیں پھینکی گئی لیکن اس اسلامی ریاست میں کسی مسلمان کو یہ گوارہ تک نہیں ہوا کہ یہ پوچھا جائے یہ کن افراد کی لاشیں ہے کیا یہ مسلمان نہیں تھے عموماً یہی دیکھا گیا ہے جب بھی کسی ہسپتال سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں وہ لاپتہ افراد ہی کے ہوتے ہیں جنھیں بلوچستان، خیبرپختونخواہ، سندھ سے اٹھائے جاتے ہیں، اور کچھ عرصہ کے بعد ان کی لاشیں اکثر ہسپتالوں کے مردہ خانوں سے برآمد ہوتے ہیں۔ یہاں اگر کشمیر میں کسی انسان کو ماردیا جاتا ہے تو یہاں کے علماءکرام اور عام مسلمان اور ریاستی میڈیا آسمان سر پہ اٹھاتے ہیں میڈیا پہ چوبیس گھنٹے کشمیر کودکھایا جاتا ہے، اگر کشمیر میں بھارت ظلم کررہا ہے تو میں بھارتی مظالم کی شدید مذمت کرتا ہوں لیکن کیا بلوچستان والے مسلمان نہیں ہیں کیوں کوئی صحافی، عالم یہاں جو ظلم ہورہا ہے اس پہ نہیں بولتا کہاں جاتا ہے ان کی انسانیت۔
بلوچستان معدنیات سے بھرا ہوا ہے، یہی معدنیات بلوچوں کے لیے وبال جان بن گئے ہیں پہلے پنجابی اسٹبلشمنٹ لوٹ رہا تھا اب چین بھی اس لوٹ مار میں حصہ لے رہا ہے، جو مختلف میگا پروجیکٹس کے نام پہ بلوچوں کا استحصال کررہا ہے ، آج جو بلوچوں کو لاپتہ کرنے اور ان کو فیک انکاؤنٹرز میں قتل کرکے پھینک دینا اس کے پیچھے چین کا ہاتھ ہے اور جو دنیا میں کمیونسٹ جماعتیں ہے وہ چین پہ زور ڈالیں،؟کیونکہ چین بھی خود کو ایک سوشلسٹ ریاست ہی کہتا ہے۔
پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کو چینی عزائم کے خلاف کھل کر احتجاج کرنا چاہیے جو کھیل چینی اسٹبلشمنٹ بلوچستان میں کھیل رہا اس کے نتائج بھیانک ہونگے بلوچ ایک کمزور قوت ہے چین کے سامنے اگر بلوچ متحد نہیں ہوئے چین کے استحصالی پالیسی کے خلاف تو بلوچ کی آنے والی نسلیں ہمیشہ کے لیے غلامی میں زندگی گزاریں گے آج ہماری عورتیں بچے بوڑھے غائب ہیں، ہماری تاریخ ثقافت ادب، روایات تک ہم سے لے لیےگئے ہیں ہم اپنی آباواجداد کی تاریخ کو بیان نہیں کرسکتے بلوچ اپنے وطن کے جدوجہد 13نومبر1839سے کررہے ہیں، خوانین سے لیکر سرداروں تک اور سرداروں سے لیکر عام بلوچ تک جن میں دانشور ،ادیب، شاعر، ڈاکٹر، انجینیئر، کسان، زمیندار، مزدور، تک اس جدوجہد میں شہید ہوچکے ہیں۔
13نومبر بھی آنے والا ہے برطانوی جارحیت کے خلاف خان محراب خان دوسرے بلوچ قبائل کے ہمراہ لڑتے ہوئے امر ہوگئے اور آج تک یہ جدوجہد جاری ہے لیکن آج یہ جدوجہد مختلف شکلوں میں ہے جن میں عسکری جدوجہد، سیاسی جدوجہد، پارلیمانی جدوجہد، شامل ہے لیکن یہ دنیا کو معلوم ہے کہ برطانیہ کے جانے کے بعد پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کیا گیا اس جبری الحاق میں برطانیہ بھی برابر کا شریک ہے لیکن بلوچ پارلیمانی جماعتوں کی موقع پرستانہ سیاست کی وجہ سے بلوچ تحریک نقصانات سے دوچار ہے۔
ہر مکتبہ فکر کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگاآج جو بلوچ نسل کشی تیزی سے جاری ہےاس میں ہمارے اپنے بلوچ بھی برابر کے شریک ہیں جن کی مختلف شکلیں ہیں سردار نظام کو مضبوط کیا جارہا ہے مختلف طریقوں سے بلوچ قبائل کو آپس میں دست گریباں کیاگیا ہے، بلوچستان کی ڈیموگرافی تبدیل کیا جارہا ہے مختلف میگاپروجیکٹس کے بہانے جغرافیائی حدود کو بلوچ کے منشاء کے بغیر تبدیل کیا جارہا ہے بلوچ کو سوچنا ہوگا ہر حال میں سوچنا ہوگا اگر بلوچ کو اپنی اگلی نسل کو بچانا ہے، تو اسے آج قربانی دینا ہوگا۔ بلوچ لاپتہ افراد کے کیس کو ریاست بلوچ ہی کے ذریعہ آلودہ بنانے کی کوشیش کررہا ہے ہمیں ایک مضبوط بین الاقوامی سفارتکاری کرنا ہوگابلوچ تھنک ٹینک ایک پیج پہ کام کریں تو بلوچ اپنی اصل قومی ہدف تک پہنچ سکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں