کراچی فدائی حملہ، پاکستانی حکام بدستور شدید تشویش کا شکار

1344

روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق حملے کو کئی ماہ گزرنے کے باوجود پاکستانی حکام بدستور شدید تشویش کا شکار ہیں۔

یہ ایک ایسا حملہ تھا جس سے پاکستانی حکام خوف زدہ تھے۔

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون بمبار نے اپریل 2022 میں کراچی میں تین چینی اساتذہ کو ان کے مقامی ڈرائیور سمیت ہلاک کر کے پاکستان کے سب سے اہم ساتھی کو نشانہ بنایا۔

خبر رساں ایجنسی روئٹر کے مطابق اس دھچکے سے بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر انیشی ایٹو (سی پیک)کو خطرہ تھا، جوپاکستان میں سڑکوں، ریلوے، پائپ لائنوں اور بندرگاہوں کے 65 ارب ڈالر کا نیٹ ورک ہے۔

یہ چین کو بحیرہ عرب سے جوڑے گا اور اسلام آباد کو اپنی معیشت کو وسعت دینے اور جدید بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔

پاکستان کے صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسندوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں علیحدگی پسندوں نے چین کو خبردار کیا کہ وہ پاکستان چھوڑ دے ورنہ مزید قتل عام کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگرچہ اس حملے کو کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن پاکستانی حکام بدستور شدید تشویش کا شکار ہیں۔

وزارت داخلہ نے گذشتہ ہفتے رؤئٹرز کو ایک بیان میں بتایا تھا کہ ’پاکستان میں چین کے شہریوں اور اس کے منصوبوں پر حملے حکومت کے لیے شدید تشویش کا باعث ہیں۔‘

حکومت اس طرح کی عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے یہ ویڈیو جاری کی۔ یہ تنظیم دہائیوں پرانی شورش کا حصہ ہے جس میں عام طور پر پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

لیکن حالیہ برسوں میں بی ایل اے نے چینی شہریوں پر حملے کیے ہیں کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ بیجنگ نے بلوچستان کے حوالے سے معاہدوں میں شامل نہ ہونے کی وارننگ کو نظر انداز کیا۔

چین وسائل سے مالا مال اس صوبے میں کان کنی اور بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں میں شامل ہے، جس میں گہرے پانی کی گوادر بندرگاہ بھی شامل ہے، یہ سب چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ ہے۔

ویڈیو کے آغاز میں ایک نقاب پوش مسلح شخص چین سے خطاب کر رہا ہے۔ انگریزی میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’چین کے صدر … آپ کے پاس اب بھی وقت ہے کہ آپ بلوچستان سے باہر نکلیں ورنہ آپ کو بلوچستان سے اس طرح نکال دیا جائے گا کہ آپ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔‘

کچھ ہی دیر بعد 30 سالہ سکول ٹیچر شری حیات بلوچ کو اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ ایک پارک میں چلتے ہوئے اور بعد میں جنگی وردی میں کیمرے سے خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

مسکراتے ہوئے اور پرسکون انداز میں 30 سالہ خاتون نے ساتھی بلوچ علیحدگی پسند جنگجوؤں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے انہیں تحریک کی پہلی خاتون خودکش بمبار بننے کا ’موقع‘ فراہم کیا۔

بیجنگ میں خدشات

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ چینی حکام کی ایک ٹیم نے تحقیقات میں مدد کے لیے پاکستان کا دورہ کیا، جو اس بات کی علامت ہے کہ بیجنگ اس حملے میں کتنی سنجیدگی رکھتا ہے۔ پہلے اس دورے کی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔

وزارت نے کہا کہ چینی حکام نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں اضافے اور موبائل فونز سے ڈیٹا کے حصول جیسے شعبوں میں پاکستان کی انسداد دہشت گردی فورسز کی مدد کی۔

تحقیقات میں براہ راست شامل چار پاکستانی ذرائع کے مطابق یہ ٹیم تقریباً دو ماہ تک ہزاروں ڈیٹا فائلوں کا جائزہ لینے کے بعد اگست کے آخر میں روانہ ہوئی تھی۔

انہیں ملنے والی معلومات نے پاکستانی حکام کو یونیورسٹی حملے کے مرکزی مشتبہ شخص کی نشاندہی میں مدد فراہم کی، جسے جولائی میں گرفتار کیا گیا تھا۔

چین کی وزارت خارجہ نے روئٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ اس سے قبل اس نے 26 اپریل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان مجرموں کو سزا دے ، چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور اس طرح کے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے رواں ہفتے چین کے دورے کے دوران پاکستان میں بیجنگ کے مفادات کا تحفظ ایجنڈے کا حصہ ہوگا۔