چینی سامراج ۔ رفیق کمبر بلوچ

628

چینی سامراج

تحریر: رفیق کمبر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کا جغرافیہ نہ صرف اس خطے کیلئے بلکہ دنیا کہ بڑی طاقتوں کیلئے ہمیشہ پرکشس رہاہے ،اس کیلئے آپ سکندر یونانی کے حملہ کی تاریخ پڑھیں یا اینگلو افغان جنک کی تاریخ دیکھیں یا حال ہی میں ختم ہونے والی وار آن ٹیرر کی جنگ ہمیشہ بڑی طاقتوں نے اپنی فوجی اسٹریٹجک اور سپلائی چین کیلئے بلوچستان کو استعمال کیا ہے اور اب بھی یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔

اگر آپ نورا منگل کی شہادت کی داستان پڑھیں یا گل بی بی کی بہادری کی داستان اور جنگیں آپ کو پتہ چلے گا کہ بلوچوں نے کیسے سامراجیوں کے خلاف قربانیاں دی ہیں اور یہ اب بھی بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے کیونکہ بلوچ بیٹھے زمیں زادگ ہیں اور اپنی سرزمین کی دفاع کرنا چاہتے ہیں جس طرح حمل جیند نے پرتگیزیوں کے خلاف جنگ میں اپنی جان کی قربانی دی اور جس طرح شہید مہراب خان نے دشمن کے خلاف جنگ کی یہ ایک کامل تاریخ اور قربانی کی تاریخ ہے۔

جب اٹھارویں صدی میں برٹش کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پہ اپنا قبضہ جمایا تو اس نے سویت یونین کو گرم پانیوں سے دور روکھنے کیلئے [ ڈیوائیڈ اینڈ رول] کی پالیسی کے تحت بلوچستان کو تقسیم کیا ،بلوچستان کے ایک حصے کو الگ کرکے ایران کے قبضے میں دے دیا ۔ اُس وقت شاہ ایران برٹش ایمپائر کا اتحادی تھا۔سوویت یونین بھی آخری وقت تک یہی کوشش کرتا رہا کہ وہ خود کو گْوادر کے سمَنْدر اور آبنائے ہرمز تک پہنچا سکے ۔اس بات سے دنیا کی ہر طاقت بخوبی خاص کر سویت یونین کے فوجی حریف آگاہ تھے۔

اگر سویت یونیں گْوادر تک پہنچ جاتا تو پھر اُسکے نتائج سوشلسٹ حامی انڈیا کی ھڈف اور خلیج کے تیل کی کنوں تک رسائی آسان ہوجاتی لیکن ایسا ہوا نہیں۔ یقیناً وہ آسانی سے اپنے لیئے تیل درآمد import اور اپنے ایجادات کو برآمد Export کر سکتا تھا۔ نہ صرف خلیج بلکہ افریکہ اور یورپ تک داخل ہونے کی خوف بھی سویت کے سیاسی اور عسکری دشمنوں کو تھی آخرکار امریکہ اور اتحادیوں نے تھکادینے والی سر د جنگ جیت لی اور دو قطبی دنیا کی ایک ایمپائر سویت یونیں کا خاتمہ دسمبر 1991 میں ہوئی اور سوشلسٹ دنیا کی ایمپائر ناکام ثابت ہوئی اور اتحادی بال آخر دونوں عظیم جنگوں کی طرح سرد جنگ کے بھی فاتح بن گئے۔لیکن سویت Explosion کے ٹھیک 30 سال بعد چائنا ایک معاشی دیو کی طرح منظر عام پر آگیا اس وقت پوری دنیا میں دوسری بڑی معاشی طاقت ہے بلوچستان کے سرزمین کو بھی چائنا اپنے معاشی مفادات کیلئے استعمال کرنا چاہتاہے، ایک پروجکٹ سی پیک CPEC کے نام سے پاکستان کے ساتھ ملکر بنارہی ہے۔ اِس حوالے سے پاکستان اور چائنا نے کئی معاہدات کئے ہیں جوکہ زیادہ تر خفیہ ہیں بات جب چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کا ہو یہ منصوبہ چائنا کی آج کا نہیں ہے۔

آج سے 2ہزار سال پہلے حاں Dynasty (خانداں) نے ریشم کی تجارت( trade )کرنے کیلئے ایک روٹ بنایا تھا جو چائنا کو جنوبی ایشیا( Central asia)اور یورپ سے ملاتا (connect) تھا.اسکو انھوں نے silk Road کا نام دیاتھا .اِس سڑک کے الگ الگ راستے تھے۔جس میں شمالی رستہ (Narthern Rought (جنوب مغربی رستہ( South western Roughte)
سمَنْدری رستہMaritine Roughte)
اور جنوبی روٹ southern Roughte
جنوبی روٹ سے اس کا موجودہ Current تعلق بلوچستان سے بھی ہے ۔ ان کا جنوبی حصہ قراقرم ماؤنٹین سے ہوکر گزرتاہے یہ وہی روٹ ہے جہاں آج کل قراقرم ہائی وئے واقع ہے یہ سڑک پاکستان کو چائنا سے ملاتا ہے اس زمانے میں یہاں سے ایک روٹ گزرتی تھی۔ ہندو کش پہاڑی سلسلے کی طرف سے جہاں سے وہ لوگ مزید تجارت کیا کرتے تھے۔

ھزاروں سال بعد چائنا کے پریزیڈنٹ شی جنگ پنگ نے 2013 میں اعلان کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سلک روڈ کو دوبارہ اچھے طریقے سے Review کریں۔ اسی لیئے انھوں نے اس پروجیکٹ کو نام دیا سلک روڈ اکنامک بلٹSilk Road Ecnomic Coridore جس کو آج کل چائنا میں بلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو یا پھر ون بلٹ ون روڈ کا نام دیا جاتا ہے یہ ایک بہت بڑا انفرا اسٹرکچر پروجیکٹ ہے جو چائنا کو پوری دنیا سے کنکٹ کردے گا ۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اس کو کامیاب کرنے کے لئے چائنا نے تقریباً 70 ملکوں میں انوسٹ invest کررہی ہے۔ سی پیک کے زریعے چائنا روڈز اور ٹرانسپورٹ کا ایک ایسا جال بچھا رہی ہےجس کے ذریعے وہ آسانی سے پورے دنیا میں ٹریڈ کر سکے ۔یہ نیٹورک چائنا سے شروع ہوکر یورپ تک کو بھی کنکٹ کرے گا اُسکو انڈین اوشین سے پاکستان کے through اور یورپ سے سینٹرل ایشیا کے through اس کے علاوہ یہ نیٹورک چین کو ساؤتھ چائنا ایسٹ south east ایشیا سے بھی کنکٹ کرے گا یہ منصوبہ چائنا کیلئےاتنا زیادہ اہم ہے کہ چائنیز کمیونسٹ پارٹی نے اس کو اپنے کانسٹیٹیوشن یعنی اپنی آئین کا حصہ بنا لیا ہے، لہٰزا کسی بھی ملک نے اگر چین کے ساتھ انگیج کرنا ہے تو ون بلٹ ون روڈ انیشیٹو کی حترام کرنی پڑیگی ۔ اس کو اکنالج اور ایکسپٹ کرنا پڑے گا سی پیک یعنی چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور اسی منصوبے کی ایک کھڑی ہے۔

بات یہ ہے کہ چین ایسا کرنا کیوں چاہتا ہے اس منصوبے کے پھیچے اس پروجیکٹ کے پیچے اسکا فلسفہ کیا ہے ۔لیکن ون بلٹ ون روڈ انیشیٹو کیا ہے ؟یہ ایک صرف پروجیکٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نیا پولٹیکل اکنامک بارڈر ہے ایک نیا سیاسی اور معاشی نظام focal پوائنٹ جس کا سنٹر آف گریوٹی جس کی کُل کائنات چائنا کے ارد گرد گھومتی ہے۔

چائنا ورلڈ بارڈر بلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت الگ الگ ملکوں میں جیسا کہ پاکستان، نائجیریا ،بنگلا دیش ،انڈو نیشیا ،ملائیشا ،اِجپٹ، روس، ساؤتھ کوریا ، اسرائیل میں بلینز آف ڈالرز خرچ کرے رہاہے ۔ انفرا اسٹرچر پروجیکٹس میں جیسے کہ ٹرانسپورٹ، ریلویز، ہائی ویز،پاور اسٹیشنز، ٹیلی کام، ایویشن اور ٹورایزم ۔

چائنا کا ماننا ہے کہ دنیا میں ایک بہت بڑا انفرا اسٹرکچر اسپیس موجود ہے انکو انوسٹ کرنے کی فوریimmidiate ضرورت ہے تاکہ یونیفائیٹunifaid انٹر نیشنل مارکیٹ کی ایک متحد عالمی منڈی بنایا جاسکے۔

لیکن ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکنھی ہے کہ چیزوں کو سمجھنے کیلئے ہمیں اُنکی گہرائی in depth تک جانا چاہئیے۔

بقول ایکسپرٹ ون بلٹ ون انیشیٹوو کیوجہ سے چائینا کا گلوبل سپلائی change پر زیادہ کنٹرول ہوجائے گا اگر یہ کامیاب ہوجاتاہے تو رسورسسز اُسکے ہاتھ میں ہونگے وہ چیزوں کو جوڑ توڑ کر استحصال کر سکے گا۔

اگر چائنا کایہ پروجیکٹ کامیاب ہوگیا تو پھر چائنا دنیا کے اوپر اپنی طاقت کے زور پہ حکمرانی کر بھی سکتا ہے۔

اس بلٹ اینڈ روڈ انیشیٹوو کا بڑا اسٹک ہولڈر پاکستان بھی ہے چونکہ پاکستان چائنا کا long term partner اسٹریٹجک ہے۔اس پروجیکٹ کی مدد میں چائنا All Ready پاکستان میں اربوں ڈالر انوسمنٹ کر چکا ہے۔جس میں سب سے میجر کنسٹریکچر اینڈ ڈیولپمنٹ آف گْوادر پورٹ ہے۔ اسکے علاوہ بہت پروجیکٹ پاور پروجیکٹ، ریلوے پرو جیکٹ ،اور روڈ کنسٹریکچر بھی سی پیک کا حصہ ہیں۔
سی پیک چائنا اور پاکستان کی کچھ اہم تریں شہروں سے گزرے گا۔ جیسے کہ کاشغر سے شروع ہو کر گلگت بلتستان، ڈیرہ اسماعیل خان، کوئٹہ، سکھر، حیدر آباد، کراچی سے گوادر تک گْوادر پورٹ کو چائنا صرف معاشی لحاظ سے نہیں دیکھتا بلکہ اِسکے پیچھے چائنا کا Strategic پلان بھی ہے۔

جیسے چائنا قازقستان کو اپنےلئے گیٹوے آف Gate way of Urop سمجھتا ہے۔ اِسی طرح گْوادر کو گیٹوے آف انڈین اوشین سمجھتا ہے۔

چائنا گْوادر کے روٹ سے گلف یعنی خلیج تک باآسانی سے پہنچ پاتا وہاں باآسانی سے تیل ،inport بھی کرسکتا ہے ۔ بلوچستان (گوادر)کا رستہ چائنا کیلئے بہ نسبت قازقستان کی روٹس سے بہت نزدیک بھی پڑھتا ہے۔ چائنا بلوچستان کی روٹ سے اپنے لئےبہت سی فائدے دیکھتی ہے۔ چائنا سمجھتا ہے کہ اگر دوسری طرف اسٹیٹ آف ملاکہ( جو انڈونیشین کا ایک چھوٹا ساآئرلینڈ ملائیشیا اور پنسولا کے درمیاں میں واقع ہے۔)کا اگر کل تھوڑا سا ہلچل یاجنگ چڑھ گئی تو وہاں سے اُس روٹ کو باآسانی سے بند کیا جاسکتا ہے کر اُس روٹ کو بند کرنے کا مطلب چائنا کی شہرگ کاٹنے کے مترا دف ہوگا۔ اسلئے کہ خلیجی تیل وہیں سے گوم کر چائنا تک پہنچ جاتی ہے ۔ اور اُسی لوکیشن میں ہے سنگا پور جو ایک میجر US Ally ہے۔اور چائنا کو ایک بڑا خطرہ یہ ہے اگر ایمرجنسی سچیوشن میں کوئی بھی کنفلکٹ ہوا united state سے تو وہاں سے تیل آنا بند بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ملاکہ کا روٹ بند ہو گیا تو چائنا کو بہت نقصان اُٹھانا پڑھتا ہے۔

گْوادر سے اچھا اور شارٹکٹ رستہ چائنا کواور کہیں پہ بھی نہیں مل سکتا۔سی پیک چائنا کو معاشی اور فوجی حوالے سےاسٹرانگ خاصیت فراہم کرتا ہے۔

اس روڈ کےپیچے چائنا کے بہت ہی بڑے مقاصد ہیں۔ آگے وہ ریلوے لائن ،ائرلائن بھی بنائے گا۔ اسکے علاوہ گوادر میں وہ اپنی Army troops کو بھی بٹا سکتا ہے اور اسی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں چینییز وہاں سےآکر یہاں بلوچستان میں آباد ہونگے بلوچ قوم کو اقلیت کی طرف دھکیل دیں گے۔

اگر آج بلوچ قوم نے چائنا کی ان سامراجی منصوبوں کو نہ روکا تو کل بلوچ قوم صفہ ہستی سے مٹ سکتی ہے ۔ بلوچ کیلئے اور کچھ نہیں رہا ہے ۔ بلوچ کا وطن بلوچ کا اقتدار اعلی سب اُنکے ہاتھوں سے جاچکے ہیں۔ اب بلوچ کا آخری سیاسی سماجی زندگی اور موت کا سوال ہے بلوچ قوم کو اپنے وجود کو زندہ رکھنے کیلئے اور اپنی قومی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے اُن طاقتوروں کیخلاف اپنی مزاحمت سْیاسی سماجی اور مسلح بنیادوں پر متحرک کرنا ہوگا ورنہ بقول بابا مری کے کہ آپ صرف ہوٹلوں میں جھاڑو اور پہونچے والے ہونگے اور کھانے والے دوسرے ہونگے۔

آج چائنا سی پیک کے علاوہ بلوچستان کی وسائل کا پاکستان کے ساتھ مل کر بے دردی سے استحصال ( Expolitaion)کررہی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ کہ جہاں اسطرح کے پروجیکٹ ہوتے ہیں وہاں اکثر فائدے وہی ریاست اُٹھاتے ہیں جو طاقتور ہوتے ہیں۔جن کے پاس طاقت ہو۔ آج چائنا اور پاکستان نے بلوچستان کی وسائلوں Recourses کے جو خفیہ معاہدات کئے ہیں یہ سب استحصال ہیں ان سب وسائلوں کو چائنا نکال کر اپنے لئے سی پیک کے روٹ کے زریعے لےجاتا ہے۔

پاکستان کا مستقبل ویسے بھی اندھیرا ہے کیونکہ پاکستان معاشی حوالے سے بہت کمزور ہے۔

سر ی لنکا کا حمل ٹوٹا پورٹ ایک مثال ہے۔ اس سے پہلے چائنا نے سری لنکا کو 1.3 بلین کا ادھار دیا تھا ۔کچھ ہی عرصے بعد سری لنکا معاشی حوالے سے لاسس پہ چلا گیا۔ پھر چائنا نے کہا کہ اب تو مجھے میرا پیسہ چاہئیے مجھے میرے پیسے واپس کر دو لیکن سری لنکا کے پاس پیسے تو تھے ہی نہیں لہذا سری لنکا کو اپنا پورٹ 99 سال کیلیے چائنا کے حوالے کرنا پڑا۔

لیکن کل چائنا پاکستان کیساتھ بھی یہی کر سکتاہے لیکن یہاں اگر ایسا ہوا تو نقصان پاکسُان کو نہیں ہوگا نقصاں بلوچوں کا ہوگا کیونکہ زمین سُمَنْدر بلوچ کا ہے چایے اسے پنجاب لوٹے یا شنگھائی
آج پنجاب کہتا ہے کہ چائنا ہمارا دوست ہے لیکن یاد رکھیں کہ کل یہی چائنا پنجاب کو اپنی مٹھی میں بند کر لے گا۔ پھر پنجاب بھی بُھکتے گا۔

لیکن بلوچ قوم اسی دن سے بھگت رہاہے جس ،, وقت سے جب برٹش کی مدد سےپاکستان نے27 اگست 1948 میں بلوچستان پر جبراً قبضہ کیا ، اُسی دن سے لے کر آج تک بلوچ قوم 75 سالوں سےاپنی وطن کی آذادی کا جنگ لڑتا آ رہا ہے۔ نہ صرف پاکستان سے بلکہ ہر اس بیرونی طاقت سے جو چائنا کی طرح پاکستان کی مدد کررہاہو
آج تک ہزاروں بلوچوں کو ریاست پاکستان نے شہید کیاہے سینکڑوں کی تعداد میں گھریں بمبارمنٹ ہوچکی اور جلا دیئے جاچکے ہیں ۔اور کئی گھروں کو پاک فوج نے چائنا کے یہی سی یپک کو کامیاب بنانے کی خاطر مسمار کر دیئے اور سینکڑوں لوگوں کو شہید ولاپتہ کر دیئے گئے ہیں آج تک ہزاروں بلوچ ریاست پاکستان کے ٹارچر سیلوں میں دردناک اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ اور ہزاروں بلوچ قیدیوں کو اپنے ٹارچر سیلوں میں دوران اذیت اور مختلف اوقات میں انھیں مارکر پھر ان کی لاشیں ویرانوں اور جنگلوں میں پھینک چکا ہے اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔

ابھی یہ ایک تازہ واقع ہے کہ پنجاب کے علاقے ملتان نشتر ہسپتال کے چھت پہ 500 لاشیں ملی ہیں جو ناقابل شناخت ہیں۔
گمان یہی کیا جارہا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو بلوچستان کے مختلف علاقوں سےلاپتہ کئے گئے ہیں اور بلوچ ہیں وہاں ملتاں نشتر ہسپتال میں اُن کے اہم اعضاوں کو نکالنے کے بعد پھر وہیں پہ پھینک دی ہیں۔

اُسی دن سے جب چائنا نے اپنے ان سامراجانہ منصوبوں کا اعلان Anouse کیا تھا اُسی دن سے یہی فیصلہ اسلام آباد اور بیجنگ نے بھی کرلیا ہے کہ بلوچ قوم کا خاتمہ(بلوچ قومی تحریک آذادی ) کرنا بھی لازمی ہے۔ خواہ اِس کام کے لئے کتنا پیسہ خرچ کرنے پڑھیں یا لاشوں کے انبار لگانے پڑیں۔

چائنا اِس وقت پورے دنیا میں دوسرے بڑے معاشی Ecnomic powarطاقت ہے۔ وہ پورے دنیا میں یہی پورٹوں کے ذریعے معاشیEcnomic تعلقات استوار کررہا ہے جیسے
اس وقت چائنا کے تقریباً سات سے آٹھ ایسے پورٹس ہیں جو ان کے زریعے ایک معاشی جال پچارہی ہے۔ جو دوسرے ممالک سے خود کو کنکٹ کررہا ہے ۔ ظاہر ہے چائنا کی ایک پورٹ تو گْوادر ہے کہ اس کے زریعے انڈیا اوشین اور وسطی ایشیاء Middle East کے علاوہ افریکہ کے کے بہت سارے ممالک بھی جوائنٹ ہونگے ۔بہت سارے چائنا کے مقاصد ہیں جیسے دنیا خدشہ ظاہر کر رہی ہے کہ کل گْوادر کو چائنا کا ایک ملٹری پورٹ بنایا جاسکتا ہے یعنی چائنا اپنے فوجی troops کو یہاں لاکر تعینات کر دے گا۔ اگر چائنا اپنے ان منصوبوں کی تکمیل کرنے میں کامیاب ہوگیا اگر بلوچ قوم نے اُنکے ان منصوبوں کو ناکام نہیں بنایا تو اسکا انجام بلوچ کیلئے بہت بھیانک ہوگی۔

اِس وقت چائنا کے کئی ممالک میں پورٹس ہیں ۔ انھوں میں سے کچھ کو چائنا اِس وقت بھی آپریٹ کررہی ہے۔ جیسے افریکہ میخ جبوتی پورٹ ہے وہاں پر چائنا کا پیپلز لبریشن آرمی کا بیس ہے ایک تنزانیہ کا پورٹ ہے اسی طرح سری لنکا کا پورٹ ہے پھر اسی طرح میانمار میں چائنا کا بھی ایک پورٹ ، بنگلادیش اور کمبوڈیا میں بھی اُنکے پورٹس ہیں۔ چائنا کے لیئے یہ بنیادی پورٹس جیولوجیکلی جس کو امریکن ریسرچر نے تقریباً 2004 میں پیش کیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد یہ تھا چائنا کے ملٹری کا ایک نیٹورک بنائے گی اور کمرشل فسلٹیز پیدا کرے گی اور جو سی لائن آف کمیونیکیشن ہیں جو ان کو اسٹینڈ کرے گی ہوناف افریکن سے جو چائنا کے مائن لائن ہے یہاں تک ایک پورا نیٹورک بنائے گی پورٹس کا اور یہاں سے جس وقت جو میجر چیک ہوائنٹس ہیں جس سے اسٹیٹ آف ملاکا ہے اسٹیٹ آف مَنْدیو ہے اسٹیٹ آف آموز ہے اور لمبوک اسٹیٹ ہے اور اسی طرح کی جو امپورٹینٹ اسٹریٹجک میری ٹائم ممالک ہیں جو پاکستان سری لنک مالدیپ بنگلادیش وغیرہ ہیں even کہ جو افریکہ کے چند ممالک ہیں اس میں بھی آتے ہیں۔

چائنا نے نہ صرف ان ممالک میں پورٹ بنائے ہیں بلکہ وہاں انکے زمین سے وسائل Resources اور منرلز سے بھی بہت فائدہ حاصل کررہی ہے۔ چائنا اُن پسماندہ ملکوں کو قرض دے کر پسا چکا ہے بعد میں ان جب یہ ممالک پیمنٹ نہ کرسکیں تو چائنا مزید اپنا جوتا ان کے اوپر رکھ دیگا۔ تو اُن ممالک کو مجبوراً چائنیز اسٹریٹجک پلان اور بلاک کو ماننا پڑیگا۔

اِس وقت جو گْوادر پورٹ ہے چائنا کی بہت بڑی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اسکو کامیاب بنانے میں چائنا بھرپور کوشس کرہاہےباور پاکستان کے ساتھ دیکر طاقت استعمال کررہا ہے۔لیکن اسکے باجود اس میں کامیابی کے امکانات محدود ہیں۔

اسلیئے کہ بلوچ قوم چائنا کے ان منصوبوں میں شامل نہیں اور یہ قبضہ گھیر سامراج کے ساتھ چائنا کی منصوبہ ہے اور یہ بلوچ منشاء کے خلاف ہے بلوچ مسلح تنظیموں کی تواتر حملوں کی وجہ سے سی پیک کا کام ایک صورت میں رُک چکا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ چائنا نے ابھی تک اپنا ہاتھ پورا نہیں کھینچا ہے۔ بلکہ سی پیک کو کامیاب بنانے کیلئے کوشش بھی کررہاہے بلوچستان کے وسائلوں کا استحصال کرنے کے علاوہ چائنا پاکستان کے ساتھ بلوچ قوم کی نسل کُشی میں بھی برابر کی شریک ہے کیونکہ پاکستان کو تمام فوجی اور جاسوسی آلات چائنا فراہم کرہا ہے، جو ڈرون اور جاسوسی کیمرے آلات اور ٹکنالوجی کی صورت میں ہیں۔

اگر چہ دنیا کی بڑی فوجی اور معاشی طاقت اس سے خوش نہیں ہیں لیکن ہم دوسروی طرف دیکھنے ہیں کہ ان پروجیکٹ کو ناکام بنانے کیلئے ابھی تک کسی طاقت نے سوائے بیان بازی کے کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی ہے لحاظہ کسی اور کی امید کے آس کے بجائے بلوچ قوم کو اپنے دست بازوں پر انحصار کرناہوگا کیونکہ بقول معقول کے کہ ہمیشہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں اجڑنا گھاس کو ہی پڑتاہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں