بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں تنظیم کے سابقہ انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو چھ سال کا طویل دورانیہ گزرنے کے باوجود تاحال منظر عام پر نہ لانے کو عالمی اداروں کی بے حسی اور غیر سنجیدگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ہزاروں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کے باوجود انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر پاکستان کو جوابدہ کرنے سے قاصر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ آج سے چھ سال قبل شبیر بلوچ کو کئی دیگر بلوچ عوام کے ساتھ کیچ کے علاقے گورکوپ سے جبری طور لاپتہ کیا گیا۔ شبیر بلوچ ایک پرامن طلبا تنظیم کے رہنما تھے۔ تنظیم نے شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالیں جبکہ انکی جبری گمشدگی کا کیس انسانی حقوق کے عالمی اداروں میں بھی جمع کرایا ہے۔ لیکن طویل عرصہ گزرنے کے باوجود عالمی ادارے نہ تو شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز کے چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کی جبری گمشدگی پر پاکستان جیسی سفاک ریاست کو جوابدہ کیا گیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ شبیر بلوچ قومی تحریک کے وہ پہلے سیاسی رہنما نہیں ہیں جنھیں جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا بلکہ اس سے پہلے تنظیم کے سابق وائس چیئرمین ذاکر بلوچ کو آٹھ جون 2009 کو مستونگ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور تیرہ سال کا طویل دورانیہ گزرنے کے باوجود تاحال ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اسی طرح تنظیم کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ گزشتہ آٹھ سال سے پاکستانی عقوبت خانوں میں اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ قومی تحریک کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان دہائیوں سے پاکستانی اذیت خانوں میں پابند سلاسل ہیں۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو چھ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باجود انھیں تاحال منظر عام پر نہ لانا انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ اس بیان کے توسط سے تنظیم ایک بار پھر عالمی اداروں سے اپیل کرتی ہے کہ شبیر بلوچ سمیت سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنا ن کی جبری گمشدگی جیسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر پاکستان کو عالمی عدالتوں میں احتسابی عمل سے گزارا جائے۔ ہم بلوچ عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ شبیر بلوچ سمیت ہزاروں لاپتہ افراد کےلیے سماجی ویب سائٹ سمیت ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھاکر احتجاجی عمل کا حصہ بنیں۔