بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف پریس کلب کے احاطے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو 4801 دن مکمل ہوگئے۔
اس موقع پر معین خان سابقہ چیئرمین بی ایس او، این ڈی پی کے کنوینئر ایڈوکیٹ شاہزیب بلوچ، نظر بلوچ ظفر بلوچ اور بلوچ خواتین وکلاء صبا بلوچ اور دیگر نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کہا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر اپنے عروج پر ہے، پتہ نہیں کتنی عورتیں بیوہ ہوچکے یا کچھ اور جن کے شوہر کئی سالوں سے جبری لاپتہ ہیں وہ لاشیں جو بیابانوں میں بے گور کفن پڑی ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے حصے کا فرض ادا کیا ہے اب ہمیں کچھ کرنا ہے شہیدوں نے اپنے پاک لہو سے جس چراغ کو روشن کیا ہے اس کو جانباز جیالوں نے آندھی اور طوفانوں سے بچا کے رکھا ہے آج ہماری انا پرستی، پسند نا پسند، قباہلیت، ہیروازم اور غیر شعوری عمل نے چراغ کو بجھانے کے لیے آندھی اور طوفان کی نظر کی ہے آج ہم ہزاروں بلوچ فرزندوں کی مسخ شدہ لاشوں یا تصاویر کو دیکھتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ ہمیں پاکستانی جبر کے خلاف متحد ہوکر جدوجہد کرنا ہوگا۔