بلوچستان کے ضلع نوشکی میں کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی ایک اور کاروائی جعلی قرار پائی ہے۔ جن میں سے دو افراد کی شناخت پہلے سے لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی ہے۔
سی ٹی ڈی کے جاری کردہ ایک بیان میں کے مطابق گذشتہ رات نوشکی کے علاقے زرین جنگل میں مشتبہ افراد کے خلاف کاروائی کے دوران چار مبینہ بلوچ عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ مذکورہ افراد ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں اور دو فروری کو نوشکی ایف سی ہیڈ کوارٹر پر حملے میں ملوث تھے۔
سی ٹی ڈی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ کاروائی کے دوران اسلحہ و گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا جبکہ مشتبہ افراد کی لاشوں کو خاران ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
ٹی بی پی کو تحقیق سے معلوم ہوا کہ مذکورہ افراد میں سے دو کا تعلق نوشکی سے جن کو مختلف اوقات میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔ اس بات کی تصدیق لاشوں کے حلیے (بالوں، جوتوں اور جسم کو دھوپ نہ لگنے کی سفیدی) سے بھی ہوتی ہیکہ مذکورہ افراد زیر حراست تھے۔
قتل کیے جانیوالے افراد میں سے ایک کی شناخت فرید ولد میر عبدالرزاق بادینی سکنہ نوشکی کے نام سے ہوئی ہے جس کو 28 ستمبر 2022 کو کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جبکہ دوسرے شخص کی شناخت سلال ولد حاجی عبدالباقی بادینی سکنہ نوشکی کو 6 اکتوبر 2022 کو کوئٹہ کے علاقے بروری روڈ ریلوے کالونی سے گھر پر چھاپے کے دوران حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا تھا۔
خیال رہے سلال بادینی کو اس سے قبل 5 مارچ 2022 کو لاہور سے جبری لاپتہ کیا گیا جنہیں اگست میں رہا کیا گیا جبکہ دوسری مرتبہ جبری گمشدگی کے بعد سلال کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیاہے۔ مذکورہ نوجوان کے ہمراہ ایک اور نوجوان ہارون بادینی ولد شاہنواز بادینی کو لاپتہ کیا گیا تھاجو تاحال بازیاب نہیں ہوسکا ہے۔
سی ٹی ڈی و جعلی مقابلے:
بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی کاروائیوں کو مشکوک قرار دیا جاتا رہا ہے جبکہ کئی کاروائیاں میڈیا و متاثرہ لواحقین کے توسط جعلی قرار پائے ہیں تاہم حکومتی وزراء اور حکام ان کاروائیوں کا دفاع کرتے رہے ہیں۔
حالیہ کچھ وقتوں سے بلوچ قوم پرست حلقے، انسانی حقوق کی تنظیمیں سی ٹی ڈی پہ الزام عائد کررہے ہیں کہ ماضی میں جو کام بلوچستان میں پاکستانی خفیہ ایجنسیاں و فوج کرتے تھے وہی کام آج سی ٹی ڈی کررہا ہے۔ اس کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء و رکن اسمبلی سردار اختر جان مینگل کرچکے ہیں۔
دو روز قبل سی ٹی ڈی نے مستونگ کے علاقے کابو میں آپریشن کے دوران چار مشتبہ افراد کو مارنے کا دعویٰ کیا جن میں سے افراد کی شناخت پہلے سے لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی جس کی تصدیق وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے کی۔
قبل ازیں اکتوبر 2022 میں سی ٹی ڈی نے نصیر آباد میں کاروائی کے دوران چار بلوچ آزادی پسندوں کو مارنے کا دعویٰ کیا ان افراد کی بھی شناخت پہلے سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی جن کو مختلف اوقات میں لاپتہ کیا گیا تھا۔
جبکہ اس سے قبل رواں سال جولائی میں پاکستانی فورسز نے زیارت کے قریب ایک مقابلے میں بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم بعد میں ان کی شناخت پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد کے ناموں سے ہوئی تھی۔
زیارت واقعے کے خلاف بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پچاس دنوں تک گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا تھا بعدازاں وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ کی یقین دہانی پر کوئٹہ کے ریڈ زون میں احتجاج موخر کیا گیا جہاں مظاہرین کو کمیٹی نے یقین دہانی کرائی کہ جبری گمشدگیوں کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے جائینگے اور زیر حراست لاپتہ افراد جعلی مقابلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
حالیہ واقعات کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین کے تشویش میں اضافہ ہوا ہے جبکہ انسانی حقوق کے تنظیموں سمیت سیاسی جماعتیں حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔