نوجوان لاش ۔ شیہک بلوچ

377

نوجوان لاش

تحریر: شیہک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انیس سو اڑتالیس سے لے کر دو ہزار بایٔس تک نا جانے بلوچستان کے فراخ دل سینے نے کتنے بے گناہ مارے گۓ شہیدوں کو اپنے حفاظت میں لیا ہوا ہے اور ناجانے کتنے اجتماعی قبریں بنانے کے لیے اسکا سینہ چاک کیا گیا۔ یہاں سے وساںٔل لے جانے کے بدلے یہاں کے رہنے والوں کو انکے بیٹے مسخ شدہ لاشیں انعام میں دی جاتی ہیں۔

ملتان میں پانچ سو لاش جو لاوارث قرار دیے گۓ انکے بھی امکانات ہیں کے ان میں سے اکثر بلوچوں کے ہی تھے، انکے بڑے شلوار بھی اس چیز کا ثبوت ہیں اگر نہیں بھی ہیں تو ریاست کیوں انکی ڈی این اے نہیں کرواتی؟ کیا ریاست کے پاس اتنی ٹیکنالوجی نہیں؟ کیا ریاست کے پاس بجٹ کی کمی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم دیکھتے ہیں بلوچستان میں ریاست کتنا پیسا اسلحہ جمع کرنے اور اس کی تشہیر کرکے چیک پوسٹوں پر لوگوں کو ڈرانے کے لیے کر رہی ہے۔ اگر اسکا چھوٹا سا حصہ ان لاشوں کی ڈی این اے کرنے پر سرف کرے تو ریاست کی اکانومی کو کوئی بڑا دھچکا نہیں لگے گا اگر ایس نہیں ہے تو ریاست کھل کر بتا دے کہ ان کو کس طرح اور کیوں مارا گیا۔

ملتان میں دیکھے گۓ لاشوں پر ابھی تک بلوچستان میں رہنے والے جبری گمشدگیوں کے شکار فیملی صدمے میں تھے کہ سی ٹی ڈی ایک اور فیک انکاوٹر سرانجام دے دیتا ہےاس بار انکا ٹارگٹ ایک سال پہلے گمشدہ قرار دیا گیا ایک شاعر ہوتا ہے۔

وسیم تابش ایک جواں سال بلوچ شاعر تھے، انکی شہادت کو ایک ہفتہ مشکل سے ہوا تھا جسے سی ٹی ڈی نے ایک فیک انکاونٹر میں شہید کیا تھا اور بعد میں اسے دہشتگرد قرار دے کر اپنے میڈیا کو اچھا بیانیہ دینے کی کوشش کی۔ روایتی میڈیا نے اپنے روایتی انداز کو برقرار رکھا اور بلوچستان کے باقی مساںٔل کی طرح اس مسئلے پر بھی آنکھ ڈالنے کی زحمت نہ کی، اسکے تین یا چار دن ہی بعد عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں سمی بلوچ کو تقریر کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن اسکی تقریر ریاست کی حقیقت بیان کرنے، ریاست کے اس تصویر کے لیے خطرہ ثابت ہو رہی ہوتی ہے جو ریاست نے اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے بنائی ہوئی ہے اور خود کو ایک تہزیب یافتہ ظاہر کرنے کی کوشش کے لیے بنائی ہے۔

پنجابی انقلابیوں کو اپنے ملک کا یہ چہرہ دیکھنا پسند نہیں ہوتا اور وہ سمی بلوچ کو اس کی تقریر روکنے کا کہہ دیتے ہیں اور اسے اسٹیج سے اترنے پر مجبور کر دیتے ہیں یاد رہے کہ سمی بلوچ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی ہیں جن کے والد کو جبری گمشدگی کا شکار بنے ہوۓ تقریبا بارہ سال ہوگۓ ہیں۔ اب یہاں ایک بات ثابت ہوتی ہے یا تو پنجابی انقلاب پسندوں کی انقلاب صرف اور صرف شہرت حاصل کرنے کے لیے ہے یا صرف پنجاب تک محدود ہے یا انکی نظر میں انسان صرف پنجاب میں رہتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ بلوچستان کی بیٹی جو ناجانے کتنے میلوں کاسفر طے کرکے کتنی اذییتیں جھیل کر لاہور پہنچی تھی کہ وہ لوگوں کو بتا سکے کہ بلوچستان میں کس طرح آگ لگی ہوئی ہے اور میڈیا خاموش ہے، ناجانے کتنے بیٹے بیٹیاں بہن بھائی اپنے پیاروں کی واپسی کا انتظار کر کے خود جبری گمشدگی کا شکار ہورہے ہیں لیکن افسوس انہیں پوری طرح بات کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔

اسی رات جب میں سمی بلوچ کی تقریر سن کر کچھ دیر بعد سو گیا تھا صبح اٹھ کر ٹویٹر پر ایک نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا ایک پاکستان صحافی کینیا میں قتل کیا گیا مجھے پہلے تو افسوس ہوا لیکن پھر خوشی، افسوس اس بات پر کہ ایک انسان مارا گیا اور خوشی اس بات کی کہ پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا کہ مرنے ولا بلوچ نہیں تھا اسی کنفیوز حالت میں جب میں کلاس گیا تو ایک لیکچر کے بعد جب کلاس میں کوئی ٹیچر نہیں تھا تو میں نے اپنے دوست کو پہلی دفعہ ٹویٹر استعمال کرتے دیکھا اور اس نے مجھے اسی صحافی کی تصویر دکھائی جو میں پہلے دیکھ چکا تھا اور اسی پر بحث چھڑ گئی۔

میں یہ جانتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا کیسے مارا گیا کیونکہ میں ٹویٹر پر دیکھ چکا تھا لیکن پھر بھی میں نے کہا آج اپنے دوست کو اس بحث کے زریعے ان بلوچوں کی لاشوں تک لے آتا ہوں جو لاوارث قرار دیے جاتے ہیں اور ان بے گناہ بلوچوں کی حقیقت تک لے جاوں جن کو سی ٹی ڈی فیک انکاونٹرز میں شہید کرکے دہشت گرد قرار دیتی ہے۔

میں نے اس سے پوچھا اسکو کیوں مارا گیا کس نے مارا اس نے کہا کینیا میں مارا گیا لیکن اس نے میرے دوسرے سوال کا جوب نہیں دیا لیکن اس نے یہ کہا کہ تو جانتا ہے نام نہیں لینا، میں نے کہا
نام لے کر کون مار سکتا ہے کچھ نہیں ہوتا لیکن پھر اس نے بات بدلی اور کہا کہ نوجوان تھا۔۔۔۔۔۔۔ یار بچارے کو مار دیا گیا اس بات پر میں نے اسے کہا کہ دوست یہ تو آۓ روز ہوتا ہے بلوچستان میں وہاں برمش نام کی ایک چھوٹی بچی سے لے کر ایک بوڑھے باپ تک ریاست کا رویہ اس سے بد تر ہے۔

میرے زہن میں نوجوان بلوچوں کی لاشیں آئی جن میں سے حیات ،بانک کریمہ ،ساجد حسین اور وسیم تابش جیسے کئ نوجوانوں کے چہرے میرے زہن میں گردش کر نے لگےجو فیک انکاوٹرز میں شہید کر دیے گۓ جو جبری گمشدگیوں میں ازییتوں سے دو چار کرکے پھینک دۓ گۓ میں اپنا ہر دکھ اپنے دوست کو سنانا چاہ رہا تھا لیکن جب میں نے آنکھیں اس کی طرف کی تو اس نے بس ایک لفظ کہا ”’اچھا ۔۔۔۔۔۔ اچھا ”اور اس نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

اس کے زہن میں یہ سوچ ہوگا کہ یہ بلوچ ہیں من گھڑت کہانیاں گھڑتے ہوتے ہیں ہم نے جیونیوز میں یا اے آر وائی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا یعنی میں جہاں اسکے ایک لاش دیکھنے پر اسے تسلی دے رہا تھا وہاں وہ میرے ہزاروں لاشوں کے دکھ کو سن کر بھی ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی جان اس طرح چڑھائی جیسے میں انسانوں کی نہیں بلکہ معمولی سی چیز کی بات کر رہا تھا تب مجھے اندازہ ہوا کہ ایک شخص دوسرے کی بات تب تک نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ خود اس درد سے نہ گزرا ہو اور اب مجھے اس صحافی کی موت پر رتی برابر افسوس نہیں یہ حالت صرف میرے دوست کی نہیں بلکہ ہر ایک کی ہے جو بلوچوں پر ہونے والے ظلم پر بے حس ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں