بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے پنجاب نشتر ہسپتال سے سینکڑوں مردہ لاشوں کی برآمدگی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے ہسپتال نشتر سے سینکڑوں کی تعداد میں ایسے لاوارث لاشوں کا ملنا ایک المیے سے کم نہیں ہے، اس سے پہلے بھی اس تعداد میں لاشیں ملی ہیں جنہیں بغیر ڈی این اے کرائے دفنایا گیا ہے جس سے لاپتہ افراد کے خاندانوں کو مزید اذیت پہنچی ہے، سینکڑوں کی تعداد میں لاشوں کا ملنا اور انہیں ڈی این اے کرائے بغیر دفنانا ایک انسانی جرم ہے جس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں آئے روز لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے بلوچستان سے اکثر لاپتہ کیے گئے افراد کی خبریں میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتی اور بہت محدود پیمانے پر کیسز میڈیا میں خبر ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر افراد کو دھونس اور دھمکیوں سے خاموش کرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے پیاروں کی گمشدگی کی خبریں پبلک نہیں کرتے لیکن انہیں رہا کرنے کے بدلے اجتماعی سزا کے تحت اکثر مار کر اجتماعی قبروں میں دفنایا جاتا ہے یا ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہیں، توتک اور پنجگور سے برآمد شدہ اجتماعی قبریں اس کی واضح مثال ہیں۔ پنجاب میں بھی یہ پہلا واقعہ نہیں جب سینکڑوں کی تعداد میں ایسی لاوارث لاشیں ملی ہیں لیکن ہمیشہ بنا کسی تحقیقات کے ان خبروں کو میڈیا سے غائب کر دیا گیا ہے۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں اس انسانیت سوز واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے انسانیت سوز جرائم میں شامل اداروں اور افراد کو سخت سے سخت سزا دینے کی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں کوئی لاوارث نہیں بلکہ ہر انسان کی کوئی نا کوئی خاندان ضرور ہوتی ہے سینکڑوں کی تعداد میں لاشوں کو بغیر ڈی این اے دفنائے جانا سنگین انسانی جرم ہے، اگر پنجاب سے برآمد لاشوں کی ڈین این اے نہیں کرائی گئی تو اس کے خلاف سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کرینگے۔