مری کیمپ نیو کاہان
تحریر: حیر الدین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مری کیمپ نیو کاہان کو بلوچستان کا غزہ پٹی بھی کہا جاتا ہے، زندگی کی تمام تر بنیادی سہولتوں سے محروم اس علاقے میں مریبلوچ رہائش پذیر ہیں، اور ان کو جان بوجھ کر تعلیم، صحت سمیت دیگر بنیادی انسانی ضروریات اور سہولتوں سے محروم رکھا گیاہے۔کوئٹہ یا دیگر علاقوں میں کوئی بھی واقعہ رونما ہو تو ریاستی فورسز یہاں کا رخ کرکے مکینوں کو اذیت کا نشانہ بناتے ہیں،گھروں پر چھاپے، گرفتاریاں، تشدد روز کا معمول ہے، یہاں شہر خموشاں بھی آباد ہے، ہزاروں مرید اپنے مرشد، سپہ سالار نواب خیربخش مری کے ارد گرد محو خواب ہیں۔ جب مرشد زندہ تھے بھی یہاں مجلس میں لوگ ان کے ارد گرد بیٹھ کر بلوچستان کا نوحہ سنتےاور بابا کے سحر انگیز باتوں میں کھو کر اپنی مستقبل کا سمت متعین کرتے اور آج بھی شمع کے ارد گرد پروانے جمع ہیں۔
کوہ چلتن کےدامن میں یہ زمین 1992 میں افغانستان سے واپس آنے والےمری بلوچوں کے لئے الاٹ کیا گیا، سرکار اور مقامی قبائلیہاں مری بلوچوں کی آباد کاری کے خلاف تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوہ چلتن کےمحافظ چلتن کے دامن میں خاک نشین ہوں،سرکارمری بلوچوں کو واپس کوہلو کاہان لیجانے پر بضد تھا لیکن قومی رہبر سردار عطاء اللہ مینگل انہیں کوہ چلتن کے دامن میں آباد کرناچاہتے تھے پھر سرکار نے آفر کیا کہ شال کے بجائے بولان میں انہیں زمین الاٹ کرتے ہیں، سردار عطاء اللہ مینگلنےشاہوانی،بنگلزئی،سید سمیت دیگر قبائل کا جرگہ طلب کرکے ان سے مری بلوچوں کو زمین دینے کی اپیل کیا تھا اور ان کی اپیل پرزمین مالکان راضی ہوگئے بعد میں سرکار بھی مجبور ہوگئی اور کسی بھی قسم کی مداخلت کرنے سے گریز کیا اور مری بلوچافغانستان سے آکر یہاں آباد ہوگئے اور اس علاقے کا نام مری کیمپ نیو کاہان مشہور ہوگیا لیکن ریاستی ادارے اس بستی کو غزہ پٹیبنانے پر تلے ہوئے تھے۔
آئے روز آپریشن، گرفتاریاں، مسخ لاشیں، تشدد، بے روزگاری، بیماریاں، بھوک و افلاس، ناخواندگی ان مظلوم مریوں کے مقدر میں لکھاگیا ہے، ان کو اسکول، اسپتال درکنار پینے کے لئے پانی تک میسر نہیں، آج سے دو دہائی قبل جب میر جاوید مینگل سینیٹر تھے انہوںنے اپنی ذاتی کاوشوں سے یہاں ایک اسکول کی بلڈنگ منظور کرایا تھا۔ نیوکاہان کی پسماندگی سے چنگیز و گزین اور سرکار وسرکاری کارندے نظریں چراتے ہیں لیکن لوگوں کو بے گھر کرنے اور ان کے خوابوں کو چھیننے کے لئے سب ایک ہوجاتے ہیں، بے بسلوگوں کے خلاف طاقت اور جبر کا سہارا لیتے ہیں۔نواب اور سردار کسی بھی قبیلے کے محافظ ہوتے ہیں یہاں الٹی گنگا بہتی ہے،چنگیز مری اور گزین مری سرکاری کارندوں کے ساتھ ملکر مری بلوچ خواتین کی تذلیل کرتے ہیں انہیں سرکاری غنڈوں کے ذریعےتشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی بچوں کے سر سے چھت چھینتے ہیں، لینڈ مافیا کے یہ کارندے مری کیمپ نیو کاہان کے زمینیںفروخت کررہے ہیں جس زمین کا آج چنگیز و گزین خود ساختہ مالک بن بیٹھے ہیں اس زمین کو حاصل کرنے کے لئے ان کی کوئی کاوششامل نہیں ہے یہاں مری بلوچوں کی آباد کاری سردار عطاء اللہ مینگل کی مرہون منت ہے کیونکہ انہوں نے افغانستان سے واپس آنےوالے مری بلوچوں کی آباد کاری کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیا تھا اور شاہوانی قبیلے کے متعبرین کو راضی کیا تھا کہ وہ یہ جگہمری کیمپ کے لئے وقف کریں۔
1993 کے انتخابات میں جنگیز مری اور گزین مری دونوں بھائی ایم پی اے اور نواب ذوالفقار مگسی کی حکومت میں وزیر بن گئے،انہوں نے مری کیمپ نیو کاہان کے مفلوک الحال لوگوں کی بنیادی مسائل کی حل کے لئے کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے، نیو کاہان کے لوگزندگی کی تمام سہولیات سے محروم ہیں۔ یہ دونوں بھائی وزیر بن کرپشن اور عیاشیوں میں مگن ہوگئے، انہیں قبیلے کے ان بے آسرالوگوں کی خیال تک نہیں آئی لیکن آج وہ مری کیمپ کی اراضی فروخت کررہے ہیں اور دونوں نواب زادے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں،یہ اراضی ان کی ذاتی ملکیت بھی نہیں بلکہ شاہوانی قبیلے کی ملکیت ہیں انہوں نے مری قبیلے کی قومی خدمات اور قربانیوں مدنظررکھتے ہوئے انہیں یہاں بلا معاوضہ آباد کاری کی اجازت دی تھی۔
جنگیز مری اور گزین مری چند روپیوں کے لئے یہاں کے مکینوں کو بے گھر کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور انہیں دھونس دھمکیوں کے ذریعےنیو کاہان مری کیمپ سے بے دخل کررہے ہیں، نواب خیر بخش مری کی رحلت سے جہاں پوری بلوچ قوم ایک عظیم رہنماء سے محرومہوگئے وہاں مری قبیلہ مکمل یتیم اور بے سہارا ہوگیا، بلوچ قوم، سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں سے اپیل ہیں کہ وہ نیو کاہان مری کیمپکو نواب زادوں کی قبضہ گیری سے بچانے کے لئے آواز اٹھائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں