بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے میڈیا میں جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی ریاست کی جانب سے لاپتہ افرادکو جعلی مقابلوں میں قتل کرنا انتہائی شرمناک اور جابرانہ اقدام ہے جبکہ اس سے ان لاپتہ افراد کیلئے سنگین خدشات جنم لے رہےہیں جو پاکستانی جیلوں میں قید و بند ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں جب ریاست بلوچ قوم کی نسل کشی کیلئے ایسی گھناؤنے ہتکھنڈےاستعمال میں لارہی ہے، جبکہ جولائی کے مہینے میں بھی 9 لاپتہ بلوچ فرزندوں کو زیارت میں ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا گیا تھاجس کے ردعمل میں لاپتہ افراد کے خاندانوں نے ریڈ زون میں 52 دنوں کا دھرنا دیا تھا جنہوں نے کٹھ پتلی وفاقی حکومت کی یقیندہانی پر اپنا دھرنا ختم کیا تھا مگر آج پھر سی ٹی ڈی نے جعلی مقابلوں میں مستونگ اور نوشکی میں لاپتہ افراد کو نشانہ بنایا ہے۔نوشکی جعلی مقابلے میں 3 لاپتہ افراد کی شناخت کرلی گئی ہے جس میں سلال ولد باقی بادینی جنہیں نوشکی سے 6 اکتوبر کولاپتہ کیا گیا تھا جبکہ فرید ولد عبدالرازق بادینی کو 28 ستمبر 2022 کو کوئٹہ اور تابش وسیم کو خضدار سے 9 جون 2022 کوریاستی ایجنسیوں کی جانب سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ جبکہ دوسری جانب مستونگ کے علاقے کابو میں بھی ایک مبینہ جعلی مقابلے میں 4 افراد کو قتل کیا گیا ہے جسمیں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ قتل ہونے والے افراد کا تعلق ایک مذہبی شدت تنظیم سے ہے لیکن 5 میں سے دو افراد کی شناختلاپتہ افراد سے ہوئی ہے ۔ جن میں ایک کی شناخت عبدالرحیم ولد عبدالصمد سے ہوئی ہے جنہیں 7 سال پہلے کوئٹہ سے جبری طور پرلاپتہ کیا گیا تھا جبکہ دوسرے کی شناخت عبیداللہ ساتکزئی ولد سلطان محمد کے نام سے ہوئی ہے جنہیں چار سال پہلے جبریگمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں مارو اور پھینکو جیسی پالیساں پاکستانی قبضہ کے دن سے شروع ہوئی ہیں اور اس میں ہر گزرتےدن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ترجمان نے بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس ظلم اور بلوچ قوم کیمجموعی نسل کشی کے خلاف اٹھ کر جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔