فوج کا پریس کانفرنس اور حقائق ۔ بلال بلوچ

805

فوج کا پریس کانفرنس اور حقائق

تحریر: بلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بروز جمعرات یعنی 27 اکتوبر کو پاکستانی فوج کے ترجمان  پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل  (ڈی جی) آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی)  کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی حیران کن موجودگی میں ایک غیر معمولی پریس کانفرنس ہوئی۔

پریس کانفرنس میں نیروبی کینیا میں قتل ھونے والے پاکستان کے معروف صحافی ارشد شریف کے حوالے سے بہت سی باتوں  سے صحافیوں کو آگاہ کیا گیا اور ماضی میں پاکستان کے سابقہ وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے بھی اس پریس کانفرنس میں بات چیت کی گئی۔

ویسے تو پریس کانفرنس ایک گھنٹے سے بھی زیادہ دورانیہ پے معید تھا جس میں بہت سے باتیں اور سوالات زیر بحث  آئے جس میں ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے تفصیلات اور شواہد بھی  پیش کیے گئے۔

تصویر کا پہلا رخ فوج کا موقف
ڈی جی آئ ایس پی آر، جرنل بابر افتخار نے صحافیوں کو بتایا کہ کس طرح ارشد شریف پاکستان سے دبئی پہنچے اور کن حالات اور وجوہات کی باعث دبئی سے کینیا کے شہر نیروبی چلے گئے۔

بابر افتخار نے کہا کہ ارشد شریف کا ٹکٹ پہلے کراچی سے دبئی ساڑھے پانچ لاکھ میں خریدی گئی تھی جس کے مطابق ارشد شریف کو کراچی ایئرپورٹ سے دبئی کے لیے روانہ ہونا تھا اور 9 ستمبر تک واپس آنا تھا۔مگر اس کے برعکس 10 اگست کو ارشد شریف پشاور ایئرپورٹ سے خیبر پختونخوا کے حکومت کی معاونت سے دبئی چلے گئے بقول ڈی جی آئی ایس پی آر ارشد شریف بذات خود پاکستان چھوڑنے پے رضامند نہیں تھے مگر ارشد شریف کو یہ باور کروایا گیا تھا کہ اس کی جان کو پاکستان میں خطرات لاحق  ہیں تو  لٰہذا وہ پاکستان چھوڑ دیں۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ ارشد شریف کے جان کو پاکستان میں کسی سے کوئی خطرہ تھا اس نے مزید کہا کہ ھم نے دبئی حکام سے ارشد شریف کو وھاں سے دربدر کرنے کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا بقول بابر افتخار ارشد شریف ویزہ کے معیاد تک دبئی میں جب تک رہے تب تک اس کی ویزہ کا معیاد تھا جب اس کا دبئی کا ویزہ ختم ھوا تو اس کو دبئی سے جانا پڑا۔

اس سلسلے میں دوسری طرف  ڈی جی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ارشد کے زندگی کو کوئی خطرہ پاکستان میں نہیں تھا  بقول ڈی جی آئی ایس آئی ارشد شریف تو وطن واپس آنا چاہتے تھے اس نے یہ بھی کہا کہ ارشد شریف سے ان سے یا ان کے ادارے سے کوئی مسئلہ نہیں  تھا بقول جرنل ندیم ان کے ادارے کے لوگوں سے ارشد شریف کا مسلسل رابطے ھوتے تھے دبئی سے بھی اس کی بات ادارے کے کچھ افراد سے ھوئی تھی۔
آئی ایس آئی کے سربراہ نے کہا کہ اس کا ادارہ ” آئین اور قانون کی پاسداری کرتا ھے اور کبھی بھی غیر آئینی کام میں ملوث نہیں ھے” 

تصویر کا دوسرا رخ

ارشد شریف جب زندہ تھے اور پاکستان میں تھے  وہ اکثر میڈیا پے آکر ان خدشات کا ذکر کرتے تھے جو انھوں نے ایک خط کے ذریعے جو انھوں نے سپریم کورٹ کو لکھا تھا جس میں انھوں نے اپنے اغواہ، قتل ھونے، جعلی مقدمات میں ملوث کرنے، ڈرانے، دھمکانے، جبری گمشدہ کرنے اوردوسرے خدشات کا ذکر کیا تھا۔  اور ادھر یہ بات بھی قابل ذکر ھے کہ ارشد شریف پے پاکستان کے مختلف صوبوں میں ایک درجن سے زیادہ  مختلف قسم کے ایف آئی آر بھی درج ھوئے تھے جو عموما ھر صحافی، سیاستدان اور انسانی حقوق کی آواز کو دبانے یا ڈرانے کے لیے پاکستان میں ایک حربے کے تحت استعمال ھوتے ھیں۔

ارشد شریف کے ساتھی اور اینکر پرسن کاشف عباسی  کا کہنا ھے اس کی بات ارشد شریف سے دبئی میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ دبئی کے ایک  ھوٹل میں قیام کر رہے تھے اور کہا کہ مجھ سے ملنے دبئی حکام کے  کچھ لوگ آئے ھیں اور لابی میں بیٹٹھے ھیں بعد میں ارشد شریف نے ھی کہا تھا کہ مجھے سے دبئی کے حکام ملے تھے اور انھوں نے کہا تھا کہ آپ کو دبئی سے دربدر کرنے کے لیے ان پے کافی دباو ہے تو آپ مہربانی  کر کے دبئی سے نکل جائیں۔ کاشف عباسی نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ اس کو دبئی سے جب نکالا گیا تھا اس وقت تک اس کے دبئی ویزہ کی معیاد باقی تھی یعنی وہ دبئی میں مزید دن رہ سکتے تھے یاد رھے کہ کاشف عباسی ارشد شریف کے انتھائی ںنزدیک کے دوستوں میں شمار ھوتے ھیں اور وہ اس کے فیملی کے بھی بہت قریب ھیں۔

ارشد شریف نے قتل ھونے سے پہلے یورپ کے ایک  انسانی حقوق کے ادارے کو بھی اپنے قتل ھونے کے خدشات سے آگا کیا تھا اور حکومتی اداروں کے ملوث ھونے کے خدشات صاف ظاھر کیے تھے


خلاصہ

اگر حقیقی طور پے دیکھا جائے تو اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ ارشد شریف کے جان کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا شاید یہ وجہ تھی ارشد شریف نے سپریم کورٹ کو چیف جسٹس کو نہ صرف خط لکھا تھا بلکہ پاکستانی سینیٹ کے اطلاعات کی کمیٹی کے چئیرمین کے سامنے بھی اپنے جان کے خطرے کے ساتھ ھی ساتھ جعلی مقدمات میں پھنسانے، جبری گمشدی کے خدشات کے پیش نظر درخواست بھی دائر کی ھوئی تھی اور دو دفع اس حوالے سے بذات خود سینیٹ کے کمیٹی میمبران کے سامنے پیش ھوکر اپنے۔ بیانات پے قلم بند بھی کروائے تھے۔


دبئی کے حوالے دیکھا جائے تو بقول بابر افتخار جس نے خود کہا تھا کہ ارشد شریف کی ٹکٹ کی واپسی دبئی سے 9 ستمبر تک کی تھی تو اس بات سے واضح یہ ظاھر ھوتا ھے کہ ارشد شریف کے پاس دبئی کا 9 ستمبر تک قانونی  رہنے کا جواز تھاجس کے بنا پے اس کی واپسی  9 ستمبر  رکھی گئی تھی اگر ویزہ کی معیاد 9 ستمبر تک نہیں ھوتا تو کوئی بھی ٹریول  ایجنسی واپسی کی تاریخ 9 ستمبر نہیں رکھتا اس سے صاف ظاھر تھاارشد شریف کے پاس 9 ستمبر تک دبئی میں رھنے کا قانونی جواز موجود تھا مگر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کس وجوھات کے بنا پے اس کو 9 ستمبر سے پہلے دبئی چھوڑنا پڑا؟


یہ ایک تلخ حقیقت ھے کہ ارشد شریف پہلے فوج کی بیانے کی تائید اور تصدیق کرتا تھا وہ اپنے جرنلزم کی قلم اور زبان کو  بلوچ سندھیوں پشتوں کی خلاف فوج کے حق میں استعمال کرتا تھا وہ اپنے قتل ھونے تک بھی بلوچ پشتون سندھیوں، مہاجروں  کے حقوق کی آواز کے بر عکس فوج کے صرف عمران مخالفت سوچ اور بیانے کو ھی شدید ناپسند کرتا تھا اور شاید اسی بیانے کی بنیاد میں وہ فوج کی ھر ایک مظالم اور کرپشن کوعوام کے سامنے پیش کرتا آرھا تھا۔

بدقسمتی سے  پنجاب کی اکثریت سیاستدانوں ، صحافیوں مفکرین کا روز اول سے یہ ھی مسئلہ رھا ھے کہ انھوں نے فوج کی مخالفت اپنے سیاسی پارٹی کی حکومت میں آنے تک کی یا پھر اپنے ذاتی فائدے یا پھر سیاسی وابستگی تک ھی کی ھے اس کی تازہ مثال نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو کا وہ نعرہ تھا مگر جب سے اس کا بھائی وزیراعظم بنا ھے نوازشریف بشمول اس کی بیٹی نے بلوچوں پے مظالم پے آواز تو کیا ایک ٹیوٹ تک نہیں کی ۔

ہہ پاکستانی معاشرے کی بدقسمتی ے کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ھے یعنی کل کے سیاستدان،  لکھاری ، مفکر جو فوج کو گالیاں دے رھے تھے بلوچوں پشتون کی آواز بن رھے تھے وہ آج کل یا تو فوج کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ھیں یا پھر کچھ بولتے ھی نہیں اور دوسری طرف مدینہ ریاست کے پیروکار سیاستدان،  لکھاری اور مفکر جو  ماضی میں فوج کے خلاف ایک لفظ بھی گوارا نہیں کرتے تھے آج اسی فوج کو میر جعفر اور صادق کے لقب سے نواز کر اپنی کرسی کی اصول  کے لیے ناجائز  اور غیر قانونی طور پے آوز دے رھے ھیں۔

میں نہیں سمجھتا اگر عمران دوبارہ آیا یا پھر یہ حکومت رھے گی بدقسمتی بلوچوں معصوم سندھیوں،  پشتون،  مہاجرین کے لیے یہ ھے کہ بدقسمتی سے دونوں صورت میں  آج تک بس کا مالک وھی ظالم وحشی چاچا بخشو ھے جو صدیوں سے  بلوچوں، سندھیوں،  پشتون،  مہاجروں اور کشمیریوں کی آوز کو روز اول سے دبا رھا ھے اور کچل رھا ھے  فرق یہ ھے صرف بس کا ڈرائیور اور مسافر ( لکھاری ، مفکر ، صحافی،میڈیا ، انسانی حقوق کے علمبردار ) تبدیل ھوگئے ھیں بخشو کے بس کا  ڈرائیور پہلے خلیفہ عمران خان تھااور  ابھی”چاچو شہباز شریف ” ھیں


رھی بات پاکستانی ادارے قانون اور آئین کے کتنی پاسداری کرتے ھیں تو ھزاروں بلوچوں، سندھیوں،  پنجابیوں،  پشتون اور مہاجرین  کس قانون اور آئین کے تحت جبری اٹھایا جاتا ھے؟ عقوبت خانوں میں کس قانون اور آئین کے تحت رکھا جاتا ھے؟ آج بھی روزانہ کے بنیاد پے اغواہ کا یہ سلسلہ جاری ھے خلیفہ کے حامی صحافیوں،  مفکرین کو آج بھی محکمہ زراعت کی سیر وقتن وقتن کروائی جاتی ھے  اور ان ہے جعلی مقدمات ابھی بھی بنائے جارے ھیں  اس کے برعکس پاکستانی معاشرے میں مظلوم اقوام کے نمائندوں،  مفکرین،  صحافیوں،  سیاستدانوں اور معصوم بلوچوں کے اغواہ، قتل ، بلاجواز گرفتاری،  غائب کرنا اسی رفتار سے جاری ھے حال ھی میں  منظور پشتین اور  دوسرے  پشتون کے خلاف پنجاب میں ایک دفعہ پھر مقدمات درج کیے گئے ھیں اور ایک یا دو مہینے پہلے کراچی کے اردو بازار سے ایک بلوچ پبلشر لالا فھیم بلوچ کو دن دھاڑے پولیس اور بنا وردی والے لوگ بنا وارنٹ کے دن کی روشنی میں اپنے ساتھ لے گئے اور آج تک اس کا کوئی پتہ نہیں حتی کہ لالا فھیم بلوچ کی اغواہ کی سی سی وڈیو فلم بھی موجود ھے جس میں صاف ظاھر ھے کہ اس کو پولیس والے اور سادہ لباس میں بخشو کے لوگ اپنے ساتھ لیجارہے نظر آتے ھیں۔

رھی بات ارشد شریف کی قتل کی ٹحقیقات کی تو  میرے خیال می اس قتل کے محرکات جاننے کے لیے تمام پہلوؤں کی باریک بینی سے جائزہ لینا ھوگا اس تفتیش میں ارشد شریف نے جو خط  سپریم کورٹ کو لکھا تھا اور جو بیانات سینیٹ کمیٹی کے سامنے قلمبند کروائے تھے سب کو تفتیش میں شامل کیا جائے جس انسانی حقوق کی تنظیم سے ارشد شریف نے اپنے جان کی خطرے کی حوالے سے حکومتی اداروں پے خدشات ظاھر کیا تھا ان تمام حقائق  کو بھی تفتیش بھی شامل کیا جائے تو قاتل تک آسانی سے پہنچا جاسکتا ھے۔

میں نہیں سمجھتا  ارشد شریف کی آواز دبانے اور قتل کرنے میں موجودہ ڈرائیور یا  کسی مسافر کا ھاتھ ھوسکتا ھے مگر یہاں یہ بات قابل غور ھے کہ پاکستان میں اصل حکومت کس کے پاس ھے؟ بس کا اصلی اور حقیقی مالکیت کس کے پاس ھے ؟ اس حوالے سے مجھے ” چاچو ” معصوم  وزیراعظم شہباز شریف کا وہ جملہ آج بھی یاد ھے کہ جو اس نے بلوچستان میں کہا تھا ” میں بے اختیار ھوں میں جاکر با اختیار لوگوں سے بلوچ مسنگ پرسنز  کے حوالے سے آپ کا مسئلہ ان کے سامنے رکھوں گا اور ان سے بات کرونگا”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں