طلبہ پر تشدد قابل مذمت عمل، گرفتار طالب علموں کو فوری طور پر رہا کیا جائے – بساک

122

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ترجمان نے کوئٹہ پولیس کی جانب سے کئی مہینوں سے بیٹھے ڈی پی ٹی کے طالب علموں اوربلخصوص خواتین طلبہ پر تشدد اور ان کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہر مسئلے کو بندوقکی نوک پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، حکومت بجائے طلباء کے بنیادی مسائل حل کرنے کے طلباء پر طاقت استعمال کر رہی ہےجو مسائل کے حل کے حوالے سے صوبائی حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں پولیس کی جانب سے طلبہ پر تشدداور ان کی گرفتاری کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

ترجمان نے کہا کہ فزیوتھراپی کے طالب علم اپنے جائز مطالبات کے حق میں گذشتہ چار مہینوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنےاحتجاج کر رہے تھے لیکن صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی اور مسئلے کی عدم توجہی کو دیکھ کر انہوں نے اپنے احتجاج کو کوئٹہپریس کلب سے ریڈ زون منتقل کیا تھا جہاں انہیں مختلف دھونس و دھمکیوں سے دھمکانے کی کوشش کی گئی اور بالآخر وزیراعلیٰبلوچستان کی جانب سے ان کے نمائندوں سے ملاقات کی گئی جہاں ان کے مطالبات پر عمل درآمد کا وعدہ کیا گیا لیکن مطالبات پرعمل درآمد کرنے کے بدلے صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کے اہلکاروں کو بھیج دیا گیا اور طلبہ پر تشدد و ان کی غیرقانونیگرفتاری عمل میں لائی گئی جس سے یہ عیاں ہوتی ہے کہ بلوچستان میں طلباء اپنے بنیادی حقوق کیلئے سیاسی اور پرامن جدوجہدبھی نہیں کر سکتے ہیں۔ پولیس اور صوبائی حکومت کا طلبہ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائےگا۔

ترجمان نے طلباء کی فوری طور پر رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے زیر حراست تمام طلباء کی رہائی فوری طور پر عملمیں لائی جائے اور اس کارروائی میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اگر صوبائی حکومت اور پولیس کی جانبسے طالب علموں کی رہائی عمل میں نہیں لائی گئی اور طلباء کے خلاف پولیس تشدد کو جاری رکھا گیا تو اس کے خلاف بلوچستانبھر میں شدید احتجاجی عمل کا آغاز کیا جائے گا۔