سردار یا سرکار
تحریر: نائل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں دو دہائیوں سے قومی آزادی کی جنگ زور شور سے جاری ہے، بلوچستان میں رہنے والے لوگوں کا نام بھی اسی سرزمین سے منسلک ہے جنہیں بلوچ کہا جاتا ہے، پاکستان کی تاریخ دانوں یا لکھاریوں نے نہ بلوچستان کی تاریخ پر کچھ لکھنے کی کوشش کی نہ بلوچستان کی حقیقی صورتحال پر کچھ لکھا۔
ان دو دہائیوں میں ماں جیسی ریاست نے ظلم کی انتہا کردی ہے، بلوچستان کی ایک تعلیم یافتہ نسل کو ریاست نے کچل دینے کی قسم کھائی تھی، ہزاروں بلوچ تعلیم یافتہ نوجْوانوں کو لاپتہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں جنگلوں میں پھینک دی، کچھ نوجْوان آزادی کا خواب لےکر پہاڑوں کی طرح نکل پڑے، ہزراوں کی تعداد میں بلوچ تعلیم یافتہ طبقہ ریاست کی بنی ہوئی زندانوں کی تاریک کوٹھیوں میں اذیت سہہ رہے ہیں، دوسری طرف بلوچستان کی ہر جونپڑی کے سامنے ایک بوڑھی ماں ایک ضعیف باپ ایک چھوٹی سی بہن اسی انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب ان کے گھر کا چراغ زندگی کی تمام خوشیوں کو واپس لیکر آئیگا۔
ان کے ساتھ ایک اور عورت بیٹھی ہوئی ہے وہ اسی الجھن کا شِکار ہیں کہ میں خود کو کسی کا بیوہ یا بیوی تصور کرکے اپنی باقی زندگی گُزار دوں، اور ایک چھوٹی سی پری اسی انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے کہ کب انکا ابو واپس آئیگا۔
ایک نَسل فوجیوں آپریشنوں ہیلی کاپڑ کی شیلنگ اور اپنے لوگوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھکر نفسْیاتی بیمار بن چُکے ہیں۔ اس کے نظر میں ہر وردی والا ان کا دشمن ہے۔
بلوچستان میں ریاست نے سرداروں کا کارڈ استعمال کرکے بلوچوں کو بنیادوی سہولتوں سے محروم کردیا، سرداروں کا کارڈ استعمال کرکے بلوچ قوم کو تعلیم سے دور رکھا۔ سرداروں کا کارڈ استعمال کرکے بلوچوں کو کئی قبائل میں تقسیم کرکے ان کے اوپر رول کررہی ہے ، جب لوگوں کو پتہ چلا کہ ہمیں ہماری بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا گیا ہے تو لوگوں نے آواز اُٹھانا شروع کیا اور ریاست نے لوگوں کی آوازوں کو دبانا شروع کردیا سینکڑوں ڈاکٹر، ٹیچر، طالب علم اُٹھائے گئے۔ بلوچستان میں جس نے اپنے لوگوں کی حقوق کیلئے آواز اُٹھایا تو ریاست نے اپنی سالمیت کیلئے ان لوگوں کو اُٹھایا، وہ سْیاسی شعور اور علم رکھتے تھے۔
اسی طرح بلوچستان ایک جنگ زدہ علاقہ بن گیااور بلوچ دھشت گرد۔۔۔۔۔۔۔، ظاہر سی بات ہے کہ دھشتگردوں کومٹانے کیلئے فوجی آپریشنز کا آغاز ہوا وہ دہائیوں سے جاری ہے، ہزاروں بلوچ نوجْوان پیرمرد کماش عورت اور بچے ریاستی مشینری کی زد میں آکر شہید ہوگئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اُٹھایا گیا۔۔۔۔۔۔۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی گھروں کو جلا کر خاکسر کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بیچارہ بلوچ اپنی سرزمین میں دربدر ہوگئے۔ علاقہ میں اسکول کالج تھے وہ راتوں رات فوجی چوکیوں میں بدل گئے اب بلوچ بچوں کیلئے پڑھنا دور کی بات ہے اب ان کیلئے جینا مُشکل ہوگیا۔
صبح سویرے اسکول جاتے ہوئے اسکول گیٹ کے سامنے بندوق کا نماش ہونے کے بعد اپنی رسمی چیکنگ کے بعد بچے کو اسکول گیٹ کے اندر جانے کا موقع ملتا تھا۔
ریاست کی طرف سے جلاؤ گھیراؤ مارو پھینکو کا پالیسی زور شور سے جاری رہا۔ پاکستان کی میڈیا میں ڈی جی ایس پی آر کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر دھشتگردوں کو مارنے کا دعوی کیا جارہا ہے اور پنجاب میں پنجابی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اپنی مونچھوں پر فخر سے تاؤ دیکھکر یہ کہتے ہوئے کہ ہمارے جْوانوں نے خوب ان دھشتگردوں کی دھلائی کی ہے( لیکن حقیقت اس سے کوسوں دور ہے)، اور دوسری طرف بلوچستان میں ایک ایک گھر کا واحد کفیل اپنی زندگی کی بازی ہار کر ہمیشہ کیلئے اس مٹی سے جاملا جس سے ان کی قومی شناخت چُھپی ہوئی ہے۔
دوسری طرف یہی حالت وزیرستان میں بھی چل رہا تھا اور پنجاب خاموش تماشا دیکھ رہا تھا کہ خود کررہا ہے۔
اچانک سرزمینِ بلوچستان بلوچوں کیلئے دوزخ بنا دی گئی۔ اب بلوچستان میں اسکولوں کالجوں میں اُستاد اور طلبہ کی جگہ آرمی نے لے لی اور قلم اور کتاب کی جگہ بندوق اور بوٹوں نے اور بلوچ اپنی سرزمین میں اجنبی بن گئی، اور اب بلوچ نوآبادیت کی تھیوری کو سمجھ گئی، اور باہر کے لوگوں نے مقامی لوگوں سے دریافت کرنا شروع کردیا کہ “کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جا رہے ہو۔
یہ جنگ اپنی شکل بدلتا رہا اور بلوچ قومی تحریک کی جنگ کامیابی کے ساتھ یہ جنگ دوسری نسل میں منتقل ہوئی۔ اب لوگوں کو سمجھ میں آگیا کہ جنگ کرنے کیلئے علم شعور زانت کی ضرورت ہے۔ ہزاروں بلوچ طلبہ نے پنجاب کی بڑے بڑے تعلیمی اداروں کا رخ کیا۔
ریاست کو یہ گوارا نہیں ہوا اس نے ہزاروں طریقے آزمانے شروع کردیئے اور بلوچ طلبہ پر جمعیت جیسے مذہبی انتہا پرست تنظیموں کو چھوٹ دی کہ انکو ڈرا دھمکا کر یونیورسٹیوں سے باہر کردیں لیکن ریاست کی یہ پالیسی ناکام ہوگئی تو اس نے سیکورٹی کے نام پر بلوچ طلبہ کی پروفائیلنگ کرنا شروع کردی۔
لیکن بلوچ کو علم و شعور سے اس قدر محبت ہے جس طرح شئے کو اپنے ھانی سے اور مجنون کو اپنے لیلٰی سے، اور یہ علم سے محبت کا سفر ہزاروں مشکلات کے باوجود بلوچ طلبہ نے مستقل مزاجی سے اپنی تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا۔
پنجاب میں آگ اس دن بھڑک گئی جب پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی قائداعظم یونیورسٹی سے فارغ ہوئے طالب علم شاہ داد اور احسان قلات میں پاکستان آرمی سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے اور ان دونوں بلوچ فرزندوں کی شہادت نے بلوچ سماج میں ایک نئے سوال کو اُٹھایا۔ دوسرے دن بی ایل اے نے دعوی کیا کہ یہ دونوں ایک سال سے بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک تھے۔
اب یہ قومی جنگ خاص طور پر بلوچ طلبہ کیلئے ایک فیشن بن گیا اور ہر یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ شاہ داد اور احسان بننا چاہتا ہے۔
ریاست کی طرف سے پنجاب اور فیڈرل کہ تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کی پروفائیلنگ تیز ہوئی۔ یہ پروفائیلنگ کا سسٹم جاری ہی تھا کہ ایک دن آفتاب جان کی شہادت کی خبر میڈیا میں پھیل گئی۔ شہید آفتاب جان شہید شاہ داد اور شہید احسان جان کی طرح بلوچ طلبہ کی رول ماڈل بن گیا۔
ریاست نے پنجاب اور فیڈرل کی تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کیلئے گراؤنڈ کو تنگ کرنے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ کو دبانا شروع کردیا ہے۔
پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بلوچ طلبہ کیلئے اوپن میرٹ کو ختم کردیا گیا۔ ریزرو سیٹوں پر فیس لینا شروع کردیا، اب ریاست یہ واضح پیغام دے رہی ہے کہ بلوچستان کی ترقی کی رکاوٹ در اصل سردار نہیں بلکہ فیڈرل ہے۔
پنجاب اور فیڈرل میں بلوچ طلبہ کی پروفائیلنگ لاہور یونیورسٹی پنجاب سے شروع ہوکر فیڈرل کی یونیورسٹیوں کا سفر طے کرکے ملتان یونیورسٹی میں پہنچ گیا۔ وہاں طلباء نے 40 دن کا احتجاج ریکارڈ کروایا اور ملتان سے لاہور تک کا لانگ مارچ۔
آپ یہاں سے اندازہ لگا سکتے ہو کہ بلوچ کو علم سے کتنا محبت ہے لیکن بلوچ طلبہ ہمیشہ کیلئے ڈٹے رہے، جس طرح میر محراب خان انگریز اور حمل پرتگیزیوں کے سامنے ڈٹا رہا اسی طرح بلوچستان کے طلبہ یہاں بھی اسی ظلم کے خلاف اُسی طرح ڈٹے ہیں۔
اب بلوچستان کے بجائے فیڈرل اور پنجاب کے یونیورسٹیوں میں بلوچ طلبہ کی پروفائیلنگ کے ساتھ ساتھ اُٹھانا بھی شروع ہوگیا۔
پنجاب یونیورسٹی لاہور اور ملتان یونیورسٹی بی زیڈ یو ملتان کے بعد اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بلوچ طلبہ فیسوں کے مسائل کا سامنا کررہے ہیں پتہ نہیں یہ کیا ماجرہ ہے کہ بلوچ طلبہ کو پڑھنے نہیں دیتا، بلوچستان میں اگر تعلیمی ادارہ نہیں ہے تو ریاست نے ہمیشہ ان کی وجہ سنڈیمن نظام کے سرداروں کو ٹہرایا ہے، کہ وہ پڑھنے نہیں دیتے لیکن اب پنجاب میں کون پڑھنے نہیں دے رہا یہ ایک سوال ہے۔
کئی دنوں سے بہاولپور یونیورسٹی میں بلوچ طلبہ علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجاب گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ بلوچستان گورنمنٹ بھی خاموش بیٹھی ہوئی ہیں، اس کے علاوہ بلوچستان میں درجنوں بھر طلبہ تنظیمیوں کے ہونے کے باوجود ابھی تک کسی نے بھی آواز نہیں اُٹھایا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں