مغربی بلوچستان میں ایرانی فورسز کے ایک اعلیٰ آفیسر کا ایک کمسن بچی کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کے بعد حالات کشیدگی کے بعد زاہدان میدان جنگ بن چکا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مظاہروں کے دوران جھڑپوں میں فورسز اور مظاہرین کو جانی نقصان کا سامنا رہا ہے۔ جبکہ مظاہرین نے کئی جگہوں پر سرکاری املاک کو نذر آتش کیا ہے۔
مظاہرے کب، اور کیوں شروع ہوئے؟
گذشتہ ہفتے نماز جمعہ کے دوران مغربی بلوچستان کے علاقے راسک میں ایک مولوی نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ایرانی فورسز کے ایک اعلیٰ آفیسر کمانڈر کرنل ابراہیم کوچکزئی نے ایک کمسن بچی کو تفتیش کے نام پر حراست میں لیا ہے جبکہ دوران حراست بچی کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
اس کے بعد مغربی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، جبکہ کل یعنی 30 ستمبر بروز جمعہ زاہدان میں عوام نے نماز جمعہ کے بعد مظاہرہ شروع کیا۔ علاقائی ذرائع الزام عائد کررہے ہیں کہ مظاہرے کے دوران فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کھول دی جس کی وجہ سے متعدد افراد جانبحق و زخمی ہوئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ اور مقامی افراد:
سیستان اور بلوچستان میں مقامی خبروں کو کور کرنے والی نیوز ایجنسی ناؤ ویش نے ہلاکتوں کی تعداد 36 سے زائد اور زخمیوں کی تعداد کم از کم 50 بتائی ہے۔
ناؤ ویش نیوز ایجنسی کے مطابق زخمیوں میں متعدد بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
زاہدان میں موجود ایک بلوچ ایکٹیویسٹ کے مطابق زاہدان میں ہونے والی جھڑپوں میں 58 افراد جانبحق اور 270 زخمی ہوئے ہیں۔
بلوچ کارکن کے مطابق زاہدان میں جمعے کے روز ہونے والا مظاہرہ چابہار میں فورسز کے اعلی آفیسر کرنل ابراہیم کوچکزئی کی طرف سے 15 سالہ بلوچ لڑکی کی کے ساتھ “عصمت دری” کے خلاف تھا جس پر فورسز نے فائرنگ کھول دی۔
حکومتی موقف:
سیستان و بلوچستان کے گورنر حسین مدرس کے مطابق کہ زاہدان میں جمعے کے روز ہونے والی جھڑپوں میں 19 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے ہیں۔ گورنر کے مطابق ان اعداد و شمار میں فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز پاسداران انقلاب کی تسنیم نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ سیستان اور بلوچستان کے پاسداران انقلاب کے انٹیلی جنس کمانڈر علی موسوی جمعے کے روز سینے میں ایک گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے اور اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
سیستان و بلوچستان کے پولیس سربراہ احمد طاہری کے مطابق جھڑپوں کے دوران زاہدان میں چار تھانوں پر حملہ کیا گیا جبکہ نیوز ایجنسی کے مطابق ان حملوں میں فورسز کے تین اہلکار حامد رضا ہاشمی، محمد امین آذرشیکر اور محمد امین عارفی مارے گئے ہیں۔
سرکاری ذرائع ابلاغ نے زاہدان میں گزشتہ روز ہونے والی جھڑپوں کو “دہشت گردی کا واقعہ” قرار دیا ہے۔
سیستان و بلوچستان کے گورنر نے کہا کہ “علیحدگی پسند گروہوں سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد نے جمعہ کی نماز کی آڑ میں ایک پولیس سائٹ پر حملہ کیا جن کا مقصد تھا اشتعال پھیلانا”
تسنیم نیوز ایجنسی نے یہ بھی لکھا: “حکومت کے مخالف عناصر اور متعدد علیحدگی پسند زاہدان میں مکی مسجد کے قریب جمع ہوئے اور فائرنگ شروع کردی، اور انہوں نے مختلف مقامات پر ٹائر جلائے اور عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا”۔
نیوز ایجنسی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ “گروپ نے ایک بیان میں ذمہ داری قبول کی ہے۔”
زاہدان میں اس وقت کیا چل رہا ہے؟
زاہدان میں مواصلاتی نظام بند ہے، غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق زاہدان میں فورسز اور مسلح افراد کے مابین کئی جگہوں پہ جھڑپیں ہوئی ہیں جبکہ ایرانی فورسز کے جنگی ہیلی کاپٹروں کی پروازیں فضاء میں اس وقت جاری ہے۔
سیستان و بلوچستان کے محکمہ تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ زاہدان شہر کے تمام اسکول ہفتے کے روز بند رہیں گے اور یونیورسٹی کے کلاس ایک ہفتے یعنی 7 اکتوبر تک بند رہیں گے۔
محکمہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ ‘خاندانوں کو پرسکون رکھنے اور سیکیورٹی مسائل کا جائزہ لینے’ کے لیے کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور پاکستانی بلوچستان میں دونوں اطراف بلوچ بستے ہیں جہاں دونوں اطراف بسنے والے قوم پرست حلقے ایران اور پاکستان کو قبضہ گیر سمجھتے ہیں اور گولڈ سمڈ لائن کو سرحد کی بجائے ایک فرضی لائن سمجھتے ہیں۔
قوم پرستوں کے مطابق گولڈ سمتھ(1871ء) اور مک مائن لائن (1896ء)برطانوی حکام نے ایران اور افغانستان کے بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے بنائے تھے۔ جو صرف اور صرف ایک فرضی لائن ہیں۔
جبکہ ایران میں بڑی تعداد میں بلوچوں کو پھانسی دینے کے واقعات پر بھی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔