جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشیں ۔ منیر بلوچ

200

جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشیں

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کو پاکستان نے اپنے نو آبادیاتی تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے اندھیر نگری چوپٹ راج میں تبدیل کردیا ہے. جنرل مشرفکے دور سے جو خون کی ہولی بلوچستان میں کھیلی جارہی ہے وہ آج بھی زیادہ ہولناک اور کربناک حالات کا نظارہ پیش کررہی ہے. مشرف کے دور سے لے کر آج تک ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، سینکڑوں مسخ شدہ لاشیںسرچ اینڈ ڈسٹرائے پالیسی کے تحت پھینکی گئی ہیں. لیکن اپنی اس پالیسی سے ریاست پاکستان بلوچ معاشرے میں جو خوف کیفضاء قائم کرنا چاہتا ہے اس میں مکمل ناکامی اس کا مقدر ہوا ہے اس لئے وہ اس عمل کو ایک مختلف طریقے سے سر انجام دے رہاہے تاکہ اس کا گہناؤنا اور بدبودار چہرہ دنیا کے سامنے آشکار نہ ہوسکے.

ویسے یہ بات زبان زد عام ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کا نظام کبھی نہیں چل سکتا وہ ایک نہ ایک دن ختم ہوجائےگا.

ویسے پاکستانی بدبودار نظام بلوچستان سے کب کا رخصت ہوچکا ہے بس وہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے کیونکہ ایک طرف بلوچجہد کاروں کے عمل نے پاکستان کی بنیادیں سیاسی اور مسلح جدوجہد کے ذریعے ہلادی ہے اور دوسری طرف جبری گمشدگان کےاہلخانہ کی آہوں نے اس ریاست کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار کردیا ہے.

ملتان کے نشتر میڈیکل کالج سے ملنے والی لاشیں جبری گمشدگان کی ہیں کیونکہ اس سے قبل لاہور کے اسپتال سے سینکڑوں لاشوںکے ملنے کا انکشاف ہوا ہے جنہیں بعد میں لاوارث سمجھ کر بغیر ڈی این اے کے دفنایا گیا تھا، توتک، دشت سے ملنے والی لاشیں بھیایسے ہی دفنائی گئی اور غالب گمان یہی ہے کہ ان ملنے والی لاشوں کے ساتھ بھی وہی کیا جائے گا جو پاکستان کا پرانا وطیرہ ہے.

کب تک بلوچستان کے فرزند لاپتہ کئے جاتے رہینگے؟ کب تک بلوچ جبری گمشدگان کو جعلی مقابلوں میں قتل اور ان کی لاشوں کواجتماعی قبروں میں دفنایا جائے گا؟ کب تک بلوچ مائیں اور بہنیں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتی نظر آئیگی؟

بلوچستان کے افراد کو جبری گمشدہ کیوں کیا گیا؟ ان کو جعلی مقابلوں میں کیوں مارا جاتا ہے؟ ان کی لاشیں کیوں مسخ کردی جاتیہے؟

یہ وہ سوال ہے جن کا جواب ایک ہی ہے کہ ان بلوچوں کو اس لئے قتل کیا جاتا ہے کہ وہ حق و انصاف کے لئے کھڑے رہے اور جدوجہدکی اور دشمن کے سامنے سرنگوں کرنے سے انکار کردیا اور ان جبری گمشدگان کو اس وقت تک مارا جائے گا جب وہ سجدہ ریز نہیںہونگے اور ان کو اسوقت تک مارا جائے گا جب تک ہم اس گھناؤنے جرم کے خلاف متحد ہو کر آواز نہیں اٹھاتے.

یہ وقت و حالات بلوچ سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں سے اتحاد کا مطالبہ کرتے ہیں. سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سےنہ ہماری منزل آسان ہوسکتی ہے اور نہ ہی یہ مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی رک سکتی ہے بلکہ اس کھینچا تانی سے دشمن فائدہاٹھا کر ہمیں  نیست و نابود کردے گا اس لئے تنظیمی و پارٹی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک ایسے اتحاد کی بنیاد رکھیجائے جہاں ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے باہمی برداشت کی فضا قائم ہو اور ہماری وہ منزل نزدیک ہو جو ہر بلوچ کےمقصد کا حصہ ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں