بلوچ تحریک کو کاونٹر کرنے کیلئے حکومت کا این جی اوز کی مالی معاونت کا انکشاف

920

بلوچستان میں مختلف این جی اوز و آنلائن ادارے ریاستی پروپگنڈہ کے لئے استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس حوالے سے کروڑوں روپے کے فنڈنگ کی خفیہ دستاویزات سامنے آگئی-

منظر عام پر آنے والے دستاویزات کے مطابق ایک منظم منصوبے کے تحت بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد، بلوچستان میں جاری جنگ، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنان، و بلوچ آزادی پسندوں کو نشانہ بناکر ریاستی بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ دستاویزات کے مطابق مذکورہ این جی او اور اس سے منسلک پروجیکٹس پر صوبائی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں جبکہ ان فنڈز کی منظوری و وصولی میں صوبائی وزیر و سینٹرز بھی ملوث قرار پائے گئے ہیں-

انکشافات کے مطابق کور کمانڈر بلوچستان کی درخواست پر حکومت بلوچستان نےان این جی اوز کو 37 ملین (تین کروڑ ستر لاکھ) دیے عطا کئے ہیں-

سرکاری دستاویزات کے مطابق اس پروجیکٹ میں ”وائس آف بلوچستان“ نامی این جی اوز کے ذریعے مختلف پروجیکٹس چلائے گئے جن پر تین کروڑ سے زائد فنڈز خرچ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ مذکورہ دستاویزات صحافی کیّا بلوچ کے جانب سے سامنے لائے گئے ہیں-

صحافی کے مطابق انہیں وائس آف بلوچستان نامی غیر سرکاری ادارے کے کچھ خفیہ دستاویزات موصول ہیں جو بغیر رجسٹرڈ سرکاری خزانے پر چلایا جارہا تھا، 2016 میں قائم کی گئی اس ادارے کی سالوں تک بلوچستان میں رجسٹرڈ ہونے کے ثبوت نہیں ہیں-

کیاء بلوچ نے بتایا کہ جب انہیں خفیہ دستاویزات موصول ہوئے تو اس حوالے سے انہوں نے متعدد سرکاری افسران، سابق بیوروکریٹس اور ایک وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری سمیت مذکورہ این جی او کے سابق ملازمین سے رابطہ کیا تاہم کوئی بھی اس بارے میں کھل کر بات نہیں کرنا چاہتا تھا جبکہ بلوچستان حکومت کے ترجمان فراح عظیم شاہ نے بھی اس معاملے پر بات کرنے سے اجتناب کیا-

صحافی کے مطابق وائس آف بلوچستان، بلوچستان اسٹارز، بلوچستان ٹی وی، اور دوسرے ادارے جعلی ٹویٹر اکاؤنٹس کا ایک منظم نیٹ ورک چلاتے ہیں یہ ایک طاقتور گروہ ہے، بلوچستان میں کوئی اس کے متعلق کھل کر بات کرنا پسند نہیں کرتا۔

کیاء بلوچ کے مطابق اس ادارے کی بنیاد رکھنے والے بلوچستان کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے جولائی میں انہیں بتایا تھا کہ 2018 میں سینیٹ میں آنے کے بعد انہوں نے خود کو وائس آف بلوچستان نامی این جی او کے روزمرہ کے معاملات سے کافی حد تک دور رکھا ہوا ہے۔ انورلحق کاکڑ کے مطابق اس پروجیکٹ کا مقصد بلوچستان کے نوجوانوں کو مین اسٹریم کرنا تھا تاکہ وہ عسکریت پسندی کی جانب راغب نہ ہوں-

کیاء بلوچ نے بتایا کہ وائس آف بلوچستان کے ملازمین بلوچوں کے نام پے کہیں سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلاتے ہیں جو اکثر لاپتہ افراد کے لواحقین، انسانی حقوق کے کارکنوں، اور صوبے میں فوجی پالیسیز پر تنقید کرنے والوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے انہیں ہراساں اور بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا عیاں ان اکاؤنٹس کو چلانے والے واقعی کوئی بلوچ ہوں-

کیاء بلوچ کے مطابق وائس آف بلوچستان کے علاوہ اسٹار اور بلوچستان ٹی وی کے نام سے بھی ان کی گروپ بنائے گئے ہیں یہ بعض اوقات سوشل میڈیا ایونٹس بھی منعقد کراتے ہیں اور کبھی کبھار پروپیگنڈا کرنے والوں کو ایوارڈز سے بھی نوازتا ہے، ایوارڈ کی مد میں ذرائع انہیں فنڈ مہیا کرتی ہے-

کیاء بلوچ نے اس حوالے سے بتایا کہ ان نیٹ ورکس کو بلوچستان میں سرگرمی سے چلانے کا مقصد بلوچ انسرجنسی کے خلاف فوجی آپریشنوں، جبری گمشدگیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور سی پیک جیسے معاشی منصوبوں کے متعلق عوامی رائے عامہ کو بدلنا ہے اور یہی باور کرانا ہے کہ بلوچستان میں سب کُچھ ٹھیک چل رہا یہ تمام تنظیمیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ ہم آہنگ ہیں ان کا تمام تر توجہ بلوچ و پشتون حقوق کے محافظوں، صحافیوں، تنقیدی آوازوں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے خلاف مہم چلانے پر مرکوز ہوا ہوتا ہے-

کیاء بلوچ نے انکشاف کیا ہے کہ وائس آف بلوچستان کے ایک سابق ملازم نے بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل میں مذکورہ این جی او کے ایک اعلیٰ ملازم کے ملوث ہونے کے متعلق کچھ حساس معلومات بھی شیئر کیں جنہیں ہم نے اس وقت روک رکھا ہے تاہم جب ہمارے پاس مزید ٹھوس ثبوت ہوں گے تو ہم اسے ضرور پبلک کریں گے۔

کیاء بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس متعلق پہلے بھی سرکاری اداروں اور وزراء سے سوال کرچکے ہیں تاہم انھیں کوئی جواب نہیں مل سکا ہے۔ وائس آف بلوچستان اور دیگر گروپس آج بھی آپریٹ ہورہے ہیں تاہم ان فرضی این جی اوز اور فوجی کاروائیوں کےلیے ان کی کھلی و بھرپور حمایت کو ان کے براہ راست فوج کے زیر کنٹرول کام کرنے کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

صحافی کا کہنا تھا کہ ایک ایسے ماحول میں جہاں این جی اوز، صحافیوں اور دیگر فلاحی اداروں کو بلوچستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں وہیں جعلی اور فرضی این جی اوز جیسے کہ وائس آف بلوچستان وغیرہ نہ صرف بنا رجسٹریشن کے کام کرتے آرہے ہیں بلکہ قومی خزانے سے انکو وافر رقم بھی ملتی ہے جسکا کوئی حساب کتاب نہیں۔

انہوں نے کہا ہم نے کچھ سوالات پھر حکومت اور ان این جی اوز کے سامنے پیش کئے ہیں ہم نے ان سے پوچھا ہے کہ کیا وہ حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور وہ حکومت سے کتنے فنڈز وصول کرتے ہیں اور طریقہ کار کیا ہے فنڈز وصولی کا اور اسی کے ساتھ دیگر شعبہ جات جیسے کھیل، تعلیم وغیرہ کی موجودگی میں وائس آف بلوچستان یا بلوچستان اسٹارز کو فنڈز کیوں دی جاتی ہیں تاہم انکے جوابات کے منتظر ہیں-

انہوں نے کہا اس حوالے سے انکے پاس مزید دستاویزی ثبوت موجود ہیں جنہیں وقت پر منظر عام پر لایا جائے گا-