بلوچوں کی کتاب سےجنونی دوستی
تحریر: ظہیربلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کے عظیم دانشوروں کا کہنا ہے کہ”کتاب انسان کی بہت گہری اورپکی دوست ہے، جو ہمیشہ اور ہر کیفیت میں ساتھ دینے والا ہوتا ہے “کتاب ہر مزاج کے انسان کو اُسی ہی مزاج کے مطابق پیش آتا ہے، کسی کو ہنساتا ہے تو کسی کو رُلاتا بھی ہے۔
کتاب خوشی بھی، کتاب غم ،کتاب انسان کونورِھدایت بھی دیتاہے، توگمراہ بھی کرتاہے،کتاب اندھیروں میں روشنی بھی اور ظلم کےتاریک راتوں میں اُجالابھی،کتاب ہمدردبھی اور ہمنوابھی۔۔۔۔۔۔ کتاب کی جتنی بھی صفت کی جائے وہ بہت ہی کم ہوگی۔
دنیا کے جن اقوام نے کتاب سے دوستی کی آج وہ دنیا پر راج کررہےہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پوری کتاب انکی ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتی ہے تو بجا ہی ہوگا۔
دنیا کے باقی اقوام کے مقابلے میں بلوچ کی دوستی کتاب سےجنونی حد تک پہنچ چکا ہے،بلوچ کتاب کی خاطر گولی بھی کھاتاہے اور لاٹھی بھی،حالیہ دنوں پنجاب کےمشہورومعروف یونیورسٹی نے بلوچ طلبہ کو محض اسکالرشپ کےنام پر نکالا تو طلباء نے یونیورسٹی کےسامنے اپنا ڈیرہ ڈال کر یہ بھی جانے بغیر کہ یہاں کتنی گرمی ہوگی؟کتنی سردی؟ دو وقت کی روٹی میسر بھی ہوگی یا نہیں؟ بس اپنےاور کتاب کے دوستی کوایک منفرد انداز میں پیش کرنےلگے۔ یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ سینکڑوں ایسے واقعات آپ کو بلوچستان اور بلوچوں میں ملینگے۔
اس سے پہلے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں طلبہ کی ہاسٹیلز پر چھاپا مارنا انکو لاہور کی جیلوں میں بند کرنا، یونیورسٹی کے اندر جمعیت کو پرموٹ کرنا پھر بلوچوں کے خلاف بھڑکانا لیکن بلوچوں نے ان ساری مشکلات کا سامنا بلا جھجک کیا، نہ ان کو مرنے کا ڈر ہے اور نہ اُٹھانے کا، کبھی کبھی یو لگتا ہے کہ یہ کتابیں نہیں بلکہ بلوچوں کیلئے آکسیجن ہیں، ہاں یہ حقیقت ہے کہ بلوچوں کیلئے کتاب ہی آکسیجن ہے اگر کتاب نہیں ہے شعور نہیں اگر شعور نہیں تو قوم اور قومیت کچھ معنی نہیں رکھتا۔
بلوچوں کیلئے تعلیمی میدان ہو یا جنگی اس ملک میں دونوں ایک ہی معنی رکھتے ہیں ہر جگہ ہر گلی ہر میدان ہر تعلیمی ادارہ میں بلوچوں کو مزاحمت کا سامنا کر پڑرہا ہے۔
جہاں جہاں بلوچوں کوکتاب کی خاطرخون سےلت پت کئے گئے انہیں دیوار میں ٹکرانے کی کوشش کی گئی ہے اگر ان واقعات کومیں بیان کروں یہ ایک چھوٹا مضمون تو کیا ہزاروں جلد پرکتاب بنادوں تو بھی کم پڑجائےگی۔
منفردسےیادآیاکہ”بلوچوں کےچندمنفردلائبریریوں نےدنیا کوحیران و ششدر کردیا اُن منفرد لائبریریوں میں اونٹ اورکنینرلائبریری سرفہرست ہیں۔
بلوچ اپنےاورکتاب سے دوستی کو ظاہرکرنے
کیلئے کیاکیا نہیں کرتے، کبھی دیکھوان کےآنکھوں میں سیاہ پٹی اورہاتھوں میں کتاب، کبھی ایک ہاتھ میں زنجیریں اوردوسری ہاتھ میں کتاب، اب توبلوچ کی کتاب سےاتنی پکی اورگہری دوستی ہوگئی ہیکہ اگر بلوچ جنگ بھی لڑرہاہوتو آپ کو اِنکےبغل میں کتاب رکھاہواضرور نظرآئےگا۔۔ یہ میرا ایمان ہے کہ گر یہ دوستی ایسی رہی کل اس خطے میں بلوچ کا شمار بھی اُن چند ذہین اور فہیم اقوام میں ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں