بلوچستان میں دوران زچگی شرح اموات کی صورتحال بدستور سنگین ہے۔ڈاکٹر ربابہ

221

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی قانون و پارلیمانی امور ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دوران زچگی شرح اموات کی صورتحال بدستور سنگین ہے ،صوبے میں زچگی کے دوران ایک لاکھ میں سے 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں ،یہ شرح قومی اوسط سے دوگنا اور پاکستان کے کسی بھی دوسرے صوبے سے کافی زیادہ ہے، اب بھی دیہی علاقوں سے زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی ایک بڑی تعداد رپورٹ نہیں ہوتی جس کے باعث تجزیہ رپورٹ اور اموات زچگی کے تمام عوامل کی درست نشاندہی نہیں ہوتی۔

بلوچستان کے تمام دیہی علاقوں سے اموات زچگی کے مصدقہ اعداد و شمار کے حصول کے لئے آئی ٹی کے جدید ذرائع استعمال میں لائے جائیں تو اہداف کا حصول ممکن ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ایم این سی ایچ کے زیر اہتمام پروانشل ٹاسک فورس کی میٹنگ کی صدارت کرتے ہوئے کیا ۔

اجلاس میں اسٹینڈنگ کمیٹی برائے سوشل ویلفیئر ، وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ، یوتھ افئیرز و کلچر میر احمد نواز بلوچ ، سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی ، ایم این سی ایچ بلوچستان کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر اسماعیل میروانی، ڈپٹی ہیڈ ڈاکٹر سرمد سعید یونیسف بلوچستان کے نمائندے ڈاکٹر محمد ہمایوں امیری ڈبلیو ایچ او کی کنسلٹنٹ انم عارف ، ڈی ایم ایس سول سنڈیمن اسپتال ڈاکٹر محبوب قمبرانی بلوچستان کی ممتاز گائناکالوجسٹ سمیت دیگر ماہرین طب بھی موجود تھے ۔

ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا کہ حالیہ سیلاب، کوویڈ اور قدرتی آفات کی تمام تر صورتحال میں سب سے زیادہ مسائل ماں اور بچے کی صحت سے متعلق ہوتے ہیں اور دیکھا گیا ہے ،یہ طبقات مکمل نظر انداز رہتے ہیں تاہم اب اس متعلق شعور بیدار ہوررہا ہے اور حالیہ سیلاب میں یہ مسائل معاشرتی طور پر واضح طور پر ابھر کر سامنے آئے اور تمام اسٹیک ہولڈرز سمیت عوام کے ایک بڑے طبقے کو ان مسائل کی سنگینی کا ادراک ہوا جو ایک خوش آئند بات ہے ۔

ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا کہ زچگی کے دوران بعض اوقات بہت ہی معمولی غفلت کے باعث عورت کی جان چلی جاتی ہے جس سے بچاؤ ممکن ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہیلتھ کیئر اسٹاف کی تربیت و تجربے کے لئے بحیثیت پارلیمانی سیکرٹری صحت ہم نے دیگر صوبوں کے ساتھ ایکسچنج پروگرام تجویز کیا تھا جس پر عمل درآمد کرکے بلوچستان کے ہیلتھ کیئر سسٹم کوبہتر بنایا جاسکتا ہے ،انسانی زندگی کا کوئی متبادل نہیں اس لئے زچگی کے دوران شرح اموات کی روک تھام کیلئے موثر قانون سازی ضروری ہے ،اس ضمن میں جامع مسودہ قانون مرتب کیا جاررہا ہے جو متعلقہ اسٹینڈنگ کمیٹی میں جانچ پڑتال اور منظوری کے بعد بلوچستان قانون ساز اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پروانشل ٹاسک فورس میں نشادہی کردہ مسائل اور ان کے حل کی تجاویز زچگی کے دوران اموات کی روک تھام کیلئے معاون ثابت ہوں گی۔

ٹاسک فورس میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی نے کہا کہ بلوچستان میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اس ضمن میں تمام حلقوں کے اراکین اسمبلی ، ہیلتھ اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی قریبی رابطہ کاری سے اشتراکی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور تجربات شئیر کرنے کے لئے دیگر صوبوں کے ساتھ ہیلتھ کیئر اسٹاف کے ایکسچینج پروگرام متعارف کرانے کی ضرورت ہے ،ہیلتھ سیکٹر میں تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی کو پورا کرکے مسائل کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے ۔

رکن بلوچستان اسمبلی میر احمد نواز بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان کے عوام کے حقوق اور صحت عامہ کی سہولیات کے حوالے سے قانون سازی میں ہماری معاونت حاصل رہے گی ،مفاد عامہ سے متعلق قانون سازی کو عجلت کے بجائے محتاط انداز میں نمٹانا ہوگا ،بلوچستان کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بہتر بناکر ان اداروں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ہم سب کو مل جل کر مفاد عامہ کے سرکاری اداروں کو بہتر بنانا ہوگا اور عوام کو بلا امتیاز معیاری طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔