بلوچستان: سیلاب سے 43 فیصد فصلوں، 30 فیصد باغات کو نقصان پہنچا۔ اقوام متحدہ

150
فوٹو: کمانچر بلوچ

بلوچستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب نے ایک لاکھ 17 ہزار 400 ایکڑ یا 43 فیصد فصلوں اور تقریباً 35 ہزار ایکڑ یا 30 فیصد باغات کو نقصان پہنچایا ہے۔

جائزے پر مبنی رپورٹ بلوچستان کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اقوام متحدہ کے اداروں کے تعاون سے تیار کی تھی اور گزشتہ روز اقوام متحدہ کے دفترِ رابطہ برائے انسانی امور نے جاری کی۔

رپورٹ کے مطابق فصلوں کو سب سے زیادہ نقصان لسبیلہ، پشین اور جھل مگسی میں ہوا جبکہ باغات سب سے زیادہ قلعہ سیف اللہ، خاران اور پشین میں متاثر ہوئے۔

یہ جائزہ صوبائی حکومت کی درخواست پر ترجیحی بنیادوں پر 10 اضلاع میں کیا گیا، رپورٹ کے مطابق حالیہ سیلاب نے فصلوں اور باغات بالخصوص پیاز، ٹماٹر، کپاس، مکئی، دالیں، چارہ انگور، سیب، انار، خوبانی اور کھجور کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر اوسطاً 15 فیصد کاشتکار گھرانوں نے گھریلو استعمال کے لیے ذخیرہ شدہ اناج کھو دیا، ان میں زیادہ تر کا تعلق خاص طور پر جھل مگسی، قلات اور لسبیلہ سے ہے۔

شدید بارش اور سیلاب کی وجہ سے کھیت سے منڈی تک جانے والی سڑکوں کو پہنچنے والے نقصان کے جائزے کے مطابق سروے میں شامل دیہاتوں میں 51 فیصد سڑکوں کو شدید نقصان، 34 فیصد کو درمیانہ نقصان، 8 فیصد کو معمولی نقصان اور 7 فیصد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، جھل مگسی، کچھی اور قلعہ سیف اللہ میں مبینہ طور پر کھیت سے منڈی جانے والی سڑکوں کو شدید نقصان پہنچا، علاوہ ازیں شاہراہوں کو پہنچنے والے نقصان سے فوڈ سپلائی چین میں خلل پڑ رہا ہے اور مقامی بازاروں میں خوراک کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔

آبپاشی کے بنیادی انفرااسٹرکچر کے حوالے سے سروے کیے گئے دیہاتوں میں 40 فیصد کو شدید نقصان، 30 فیصد کو درمیانے درجے کا نقصان، 7 فیصد کو معمولی یا کوئی نقصان نہیں پہنچا جبکہ 15 فیصد دیہات میں آبپاشی کا بنیادی انفرااسٹرکچر دستیاب نہیں تھا، سروے کیے گئے اضلاع میں آبپاشی کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو نقصان زیادہ تر جھل مگسی، لسبیلہ اور نوشکی میں رپورٹ کیا گیا۔

ان تباہ کاریوں کے سبب مویشیوں کو بے پناہ نقصانات کے علاوہ جانوروں کی بیماریوں اور اموات کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے، مجموعی طور پر سروے میں شامل دیہات میں 56 ہزار 530 گھرانے (تقریباً 50 فیصد) مویشی پالتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق جھل مگسی، قلات، خاران، پشین اور لسبیلہ سے ہے، مردہ یا گمشدہ مویشی والے گھرانوں میں سے زیادہ تر کا تعلق بھی جھل مگسی، لسبیلہ، قلعہ سیف اللہ، نوشکی اور خضدار سے ہے۔

فارمز سے مارکیٹ جانے والی سڑکوں اور بین الاضلاعی شاہراہوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے مویشیوں کے لیے درکار سامان کی ترسیل بھی متاثر ہوئی ہے، مویشی منڈیوں میں چارے/فیڈ کے اسٹاک کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

تقریباً 73 فیصد متاثرہ گھرانوں کے پاس بازاروں سے خوراک خریدنے کے لیے ناکافی وسائل ہیں، رپورٹ کے مطابق خوراک کی خریداری کے لیے ناکافی وسائل کے حامل سب سے زیادہ گھرانے لسبیلہ میں (84 فیصد) اور جھل مگسی میں (82 فیصد) ہیں۔

یہاں موجود گھرانوں کے پاس اپنے استعمال کے لیے اوسطاً 13 روزکے کھانے کا ذخیرہ ہوتا ہے، تاہم متاثرہ اضلاع میں سے چمن میں (5 روز)، لسبیلہ میں (7 روز) اور کچھی میں (7 روز) موجود گھرانوں کے پاس خوراک کا ذخیرہ سب سے کم ہے۔