اے دل!کوئی تو نوحہِ دردِ دل ہو ۔ محمد خان داؤد

203

اے دل!کوئی تو نوحہِ دردِ دل ہو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

پہاڑی ماں پہاڑی بولی میں رو رہی ہے
شہری لوگ شہری کانوں سے اس ماں کا دکھ نہیں سن رہے
پہاڑی ماں انصاف،عدالت،قانون کو کوس رہی ہے
شہری لوگ اس ماں کا درد نہیں سمجھ پا رہے
پہاڑی ان پڑھ ہو کر بھی قانون کے تقاضوں کو سمجھ رہی ہے،عدلیہ کے مکر سے واقف ہے
اور ہم اس کے درد سے بہت دور قانون اور انصاف بھری پوسٹیں کر رہے ہیں
یہ ماں پہاڑوں کے درمیاں رہ کر بھی انصاف سے واقف ہو گئی
اور جان گئی کہ انصاف سوائے پیسوں کے کھیل کے سوا کچھ نہیں
اور ہم اس ماں کے درد سے بہت دور رہ کر اس کے مقتول بیٹے کے شدید ترین تشدد والی تصویر پوسٹ کر کے اس پر غلیظ جملوں کی بارش کر رہے ہیں
یہ کیسا دیس ہے؟اس دیس کی یہ کیسی دیس دروہی مائیں ہیں کہ
تھر میں معصوم مائیں جب اپنے معصوم بچے دفن کر تی ہیں تو ساتھ میں قرآن لے جا تی ہیں اور بہت رو کر مالک سے کہتی ہیں
”اللہ خیال رکھنا یہ میرے بغیر ڈرتا ہے!“
اور محراب پندارانی کی قبر کشائی کے وقت بھی بلوچ ماں کے ہاتھوں میں قرآن تھا اور وہ ماں آنسوؤں کی زباں میں کہہ رہی تھی
”اللہ کیا کوئی ایسا بھی کرتا ہے؟وہ تو بہت معصوم تھا جب قتل ہو رہا تھا
تو تم آتے
تم نہیں آئے تو مجھے خبر کر دی ہو تی!“
پھر وہ ماں رونے لگتی ہے
میں اس ماں کی زبان تو نہیں سمجھ رہاپر میں اس ماں کا وہ درد محسوس کر سکتا ہوں جس درد کی بولی میں وہ ماں اپنا درد بولی اور آنسوؤں میں بیان کر رہی ہے۔وہ ماں اپنے ہاتھوں میں قرآن تھامے اس بات کا اظہار کر رہی ہے کہ سرکار،امیر۔سرمائے دار ہم غریبوں کے نہیں یہ میرا سھارا تھا چھن گیا اب اگر انصاف ہوا تو اللہ کرے باقی کچھ نہ ہوگا!
وہ ماں جو کچھ نہیں جانتی،اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ نصیر آباد سے کوئٹہ کتنے کلو میٹر دور ہے
پر اس ماں کو یہ معلوم ہے کہ انصاف اسے تھکا دیگا اتنا تھکائے گا کہ محراب پندرانی کی قبر سے مٹی بھی اُڑ اُڑ کر ختم ہو جائیگی،انصاف اس ماں کو اتنا تھکا دیگا کہ وہ ماں غم اور درد میں اور بوڑھی ہو جائیگی
آج انصاف نے اس بوڑھی بلوچ ماں کو تھکا دیا
امیر انصاف جیت گیا اور غریب بلوچ ماں ہار گئی
انصاف اس ماں کو اتنا تھکا دے گا کہ اس ماں رو رو کر نظر ختم ہو جائے گی
عدالتوں میں ماؤں کی آہوں،سسکیوں،کو نہیں دیکھا جاتا وہاں تو ثبوت چاہیں اس ماں کے پاس کیا ثبوت ہے کہ اس کے مقتول بیٹے کو سدا بہار ٹرانسپوٹر نے قتل کیا ہے؟سوائے اس کے کہ اس معصوم محراب پندرانی کے جسم پر ایسا تشدد تھا جیسا تشدد مخالف ملکوں کے جاسوسوں کے جسموں پر ہوتا ہے۔
پر وہ کوئی مخالف ملک کا جاسوس نہیں تھا
وہ تو چائلڈ لیبر تھا
محراب پندرانی کا معصوم اور مختصر جسم کم پڑ گیا پر اس جسم پر لوہے کی راڈوں۔کے سرخ،لہو رنگ۔نیلے داغ کم نہیں پڑے محراب کا کون کے جسم کا کون سا حصہ ایسا تھا جس پر شدید ترین تشدد کے نشانات نہ ہوں؟
وہ قاتل ٹرانسپوٹر تو اسے خودکشی کا رنگ دے کر ایسے ہی دفنانا چاہتا تھا
پر جسم پر نیلے اور لہو رنگ داغ بولے پڑے کہ
”لوگوں کو ہے خُرشیدِ جہانتاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اِک داغِ نہاں اور!“
معصوم پندرانی کے جسم پر مہتاب نہیں اترا!
معصوم محراب کے جسم پر کوئی چاندنی کا عکس نہیں
معصوم محراب کے جسم پر کوئی شمع نہیں جلی
معصوم پندرانی کے جسم پر کوئی سرخ سویرا نہیں ابھرا
معصوم محراب کے جسم پر کوئی سرخ پھول نہیں کھلا!
معصوم محراب پندرانی کے جسم پر کسی سورج کا گزر نہیں ہوا
اسے تو داغا گیا ہے۔اسے تو جلایا گیا ہے
وہ دیس دروہی نہ تھا
وہ تو دیس بھگت تھا!
رات کے تمام چاند ختم ہو جائیں
تمام چاندوں کے ماہ تمام ہو جائیں
پھر بھی محراب پندرانی کے جسم پر اتنے بدترین تشدد کے نشانات ہیں
کہ وہ ختم نہ ہوں
اک سرمائے دار نہ اک معصوم کا قتل اس لیے کر دیا کہ اس کے گریبان تک اس مزدور کے ہاتھ نہیں پہنچ پائیں گے
اک ظالم پیسے والے نے اک بلوچ ماں کو اس لیے دردوں کے صحرا میں رُلا دیا کہ وہ ماں اس سے کون سا حساب پچھے گی؟
اس سرمائے دار نے قتل کیا کرامات سمجھ کر
پر اب درد اور لہو رنگ بول پڑیں ہیں کہ نہ تو وہ خود کشی تھی
اور نہ کرامات
وہ ایک امیر زادے کے ہاتھوں غریب بلوچ
کا قتل تھا
قتل ہے
اور قتل رہے گا
جب تک
جب تک اس ماں کے آنسو ؤں کو انصاف کے دوپٹے سے نہیں پونچھا جاتا
اب تو معصوم محراب کا جسم ایک اعلان بن چکا ہے
ننگا پوسٹر بن چکا ہے
لکھی تحریر بن چکی ہے
ایک ایسا نعرہ بن چکا ہے جس میں بلوچ ماں کی فریاد بھی شامل حال ہے
جسے سوشل میڈیا کی معرفت سب پڑھ سکتے ہیں
بھلے محراب کا گھائل وجود وائرن نہ ہو
اب محراب کا جسم بس آہ نہیں کراں نہیں
پر ایسی چیخ ہے
جس چیخ کا سفر شروع ہونا باقی ہے
پر اس بات سے کون انکار کریگا کہ وہ گھائل نہ تھا؟
اب کسی کو کچھ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں محراب کا جسم خود ہی کہہ رہا ہے کہ
”جلا ہے جسم تو دل بھی جل گیا ہوگا
کُریدتے ہو اب کیا راکھ جستجو کیا ہے؟“
اب ہمیں محراب پندرانی شہید کے جسم کو مزید ٹٹولنے کی ضرورت نہیں
پر اس جسم کو ایک پرچم بنا کر لہرانا ہے
اداس غمگین ماتم کرتی ماں کو یہ بتانا ہے کہ
سرمائے دار بہت جلد پھانسی سے جھول جائیگا
محراب پندرانی کا لہو لہو جسم ایک ہمیں بلا رہا ہے
اس جسم کو قبر کے حوالے مت کرو
یہ شمع ہے اسے جلنے دو
اس شمع کی روشنی سے بلوچ دیس کو بتاؤ کہ
کون تھا جو جل گیا
کون تھی جو رُل گئی؟
پر یہ سب خواب تھا
ایسا خواب جو دن کی روشنی میں دیکھا گیا ہو
ایسا خواب جو دانا کو بھی بینا کر گیا ہو
پر اس ماں کا کیا جو جل گئی
جو رُل گئی ہے
کاش
کوئی تو آنسوؤں میں بھیگتا
کوئی تو درد میں جلتا
کہیں تو دیعت ہوتی
کہیں تو آنسوؤں کا ازالہ ہوتا
پر کہیں کچھ نہیں
کیس ختم ہوا
قاتل چھوٹ گیا
بلوچ ماں پہاڑوں کے دامن میں
پنہوں کے نقشِ پا تلاشتی رہی
بلوچ ماں روتی رہی
قومی میڈیا نے تو شارخ جتوئی کو ہیرو بنا دیا
پر قومی میڈیا سے اک بلوچ ماں کا بیٹا مظلوم بھی نہ بنا سکا
ایسی بدنصیبی پر ہم کیوں نہ روئیں
کیوں نہ چیخیں
اور کیوں نہ کہیں
’’اے دل!کوئی تو نوحہِ دردِ دل ہو‘‘


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں