امریکہ نے کہا ہے کہ سن 2015 میں ہونے والے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنا ’’ابھی ہماری توجہ کا مرکز نہیں ہے۔‘‘ محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ تہران نےجوہری معاہدے کو بحال کرنے میں بہت کم دلچسپی ظاہر کی ہے اور یہ کہ واشنگٹن اس بات پر توجہ مرکوز کر رہا ہے کہ ایرانی مظاہرین کی حمایت کیسے کی جائے۔
ترجمان نیڈ پرائس سے جب پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اس معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے جس کے تحت ایران نے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو روکا تھا، تو انہوں نے جواب دیا، ’’اس وقت ہماری توجہ اس پر نہیں ہے‘‘۔
خبر رساں ادارے “رائٹرز” کے مطابق ترجمان پرائس نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ ایرانی حکام کے عمل سے واضح ہے کہ وہ کوئی معاہدہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
ترجمان نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں ایران کی طرف سے کوئی ایسے بات سننے میں نہیں آئی جو یہ ظاہر کرے کہ تہران نے اس معاملے پر اپنی پوزیشن تبدیل کر دی ہے۔
’’اس لیے اس وقت، ہماری توجہ اس قابل ذکر بہادری اور جرات پر مرکوز ہے جس کا ایرانی عوام اپنے پرامن مظاہروں کے ذریعے مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘‘
ستمبر میں 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی ایرانی اخلاقی پولیس کی تحویل میں موت سے بھڑکنے والے حکومت مخالف مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ’’اس وقت ہماری توجہ اس بات پر روشنی ڈالنے پر ہے کہ وہ (مظاہرین) کیا کر رہے ہیں اور کیسے ہم ان کی حمایت کر رہے ہیں،“
یاد رہے کہ سن 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کو ترک کر دیا تھا اور یک طرفہ طور پر ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر د ی تھیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں ایران کی تیل کی برآمدات کو روک کر اس کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔
ان اقدامات کے ایک سال بعد تہران نے دھیرے دھیرے معاہدے میں طے پائی گئی جوہری حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ تہران کے ردعمل سے امریکہ اسرائیل اور خلیجی عربوں میں یہ خدشات پھر سے پیدا ہو گئے کہ شاید ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران نے ایسے عزائم رکھنے کی تردید کی ہے۔