استاد اور سماج
تحریر: شفیع بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
محترم کہہ کر جس کو میں پکاروں تو لازم ہے کہ احترام کو جانچ لوں۔ آج جب ہوش آیا تو میں ماضی کے خیالوں اور یادوں میں کھویاہوا تھا. ماضی کیسے؟ وہ اس طرح کہ میں اپنے پرانے یاداشت میں تھا۔ وہ خیالات جنہیں مجھ پر طاری کیا گیا تھا۔
یقینا استاد قابل احترام ہے مگر نسلیں تباہ کرنے والے کو احترام و اعزاز کا کوئی حق نہیں۔ آج سے تقریباً پانچ ہزار برس قبل سےتعلیمکا سلسلہ ہنوز جاری ہے مگر ان سالوں میں صرف استاد کے ذریعے بچوں کے اذہان کو معذور بنایا گیا ہے۔
جب ایک معذور ذہن تیار ہوتا ہے تو آج کے سوچ حاوی کرنے والے کا غلام ہی بناتا ہے۔ کیونکہ اس بچے کو استاد کوئی حق نہیں دیتا کہوہ اپنے استاد سے یہ سوال پوچھے جس سے اس کو منع کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے وہ ہر چیز کو اسی زاویہ سے دیکھتا ہے جس طرحاسے دکھایا جائے۔
ماضی جو گزر گیا اور ختم ہو چکا ہے جو کہ خود مردہ ہے۔ معاشرہ میں اس ہی مردے سے بچے کو خواب دکھا کر بچے کو اس ہیلمحے میں مار ڈالتے ہیں اور یہ کام عظیم استاد سے کروایا جاتا ہے۔
کل کے 17 گریڈ کے غلاموں کی مثالیں دے کر ایک عظیم سوچ کو محدود کرنا اور ختم کرنا بھی اس ہی عظیم استاد سے کروایا جاتاہے ۔
جب میں ماضی میں رہوں گا تو ایک محدود سوچ کا ہی مالک رہوں گا۔ مجھے یہ تو سکھایا گیا کہ ورثے میں ملے باپ کی عمارت میںایک اور منزل کی عمارت تو ٹھیک ہے. پر مجھے یہ نہیں کہا گیا کہ کل میں پھنسے سوچ سے نکل کر آج اور آنے والے دن کے بارے میںسوچ لوں۔ استاد بادشاہ نہیں ہوتا وہ بادشاہ بناتا ہے۔
ہم استاد کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تو ہیں مگر کبھی سوچا کہ ایک استاد بادشاہ بن جائے تو باعث فخر مگر ایک بادشاہ استادبناکے تو دکھائیں۔ قطعاً نہیں کیونکہ آج کا سیاست دان بھی اپنے لیئے غلام بنانے کا سوچ رہا ہوتا ہے اور اپنے ان خیالات کو بچوں کےاذہان میں بھی اس ہی استاد کے ذریعے طلبہ کے اذہان میں منتقل کر دیتا ہے۔
مختصراً یہ کہ ایک استاد کا فرض صرف یہ نہیں کہ ذنڈے کے زور پر حروف تہجی سکھائے بلکہ آج سے کل کی طرف راغب کرنے،عظیم مقصد کی پہچان اور وسیع و عریض سوچ پیدا کروانے والا شخص استاد ہے. معزور ذہن کو صحتمند بنانے والا ہی استاد ہےاور آنے والے کل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوئے آگے بڑھنے کی جستجو پیدا کرنے والا استاد ہے ۔ آج کے زور آوروں کی طیش اور غضب کامقابلہ کرنے کی توانائی پیدا کرنے والا استاد جیسے عظیم منسب پر فائز ہوتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں