آواران تعلیم کی طرف گامزن ۔ شیرخان بلوچ

151

آواران تعلیم کی طرف گامزن

تحریر: شیرخان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے سب سے پسماندہ ترین علاقے، یعنی مشکے، جھاو، گیشکھور، اور آواران، دراصل آواران (مشکے، جھاو اور گیشکھور) کے ڈسٹرکٹ ہیں، لیکن آواران ڈسٹرکٹ صرف نام کا ہے، جہاں کئی بچے اور بچیاں تعلیم سے محروم ہیں، بڑے بڑے ٹھیکیداروں اور نام نہاد قوم پرستوں نے تو پہلے ہی وہاں سے مائیگریشن کی ہے، ووٹ کے دوران ہر کوئی اپنے ڈھول کے ساتھ آکر عوام سے بھیک مانگنے لگتے ہیں۔ رہی بات غریبوں کی وہ تو دن رات ایک روٹی کے لیے فیکٹریوں، کھیتوں، اور باقی کام کرنے میں نظر آتے ہیں۔

وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم دے سکیں، کچھ ہی اسکولز ہیں جو زلزلہ کے بعد صرف نام کے اسکولز رہ چکے ہیں۔ مثلآ کہیں اساتذہ ایسے بھی ہیں جنہیں کسی اور کے پوسٹ پر منتخب کیا گیا ہے اور کچھ چپراساں بھی پڑھانے لگے ہیں۔اور خود وہاں کے اساتذہ اپنے ہی اسکولوں سے دور جاکر کسی اور جگہ پرائیوٹ کاموں میں مصروف ہیں۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آواران کے نام نہاد سیاسی جماعت ہمیشہ عوام کو اپنے پاؤں تلے روندتے نظر آتے ہیں۔لیکن یہ پسماندگی زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا کیونکہ اب نئے اور مستقبل کے معمار ابھرنے لگے ہیں، وہ اتنی پسماندگی و بدعنوانیوں کے بعد بھی کسی حد تک اپنا فلسفہ و منطق، علم و دانش، شعور و ادب اور سماج کے کیلئے مستقبل کی راہیں ہموار رہے ہیں۔

گورنمنٹ اسکولوں اور انٹر کالجوں سے امید ٹوٹ کر اب نئے اساتذہ اور شعور دینے والے انسانوں نے جنم لینا شروع کردیا ہے، مشکے جس کے بارے میں میں نے شروع میں کہا کہ بلوچستان آواران کا وہ تحصیل ہے جہاں ہمارے بچے اکثر پڑھے لکھے نظر آنے لگتے ہیں، یہ کسی گورنمنٹ اور عالمی برادرانہ تعیم و تربیت کا کمال نہیں بلکہ وحید راہی( جو کہ جے وی ٹی ٹیچر اور برائیٹ فیوچر لینگوج اکیڈمی آف آواران کا ڈاریکٹر ہے) اور اکرام صاحب( مشکے بوائز ائیر سیکنڈری اسکول میں ایک استاد اور مشکے انگلش لینگویج اکیڈمی کا ڈاریکٹر) جیسے عظیم شخصیتوں کی بدولت ہے۔

اکرام صاحب سے میرا ملنا جلنا رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ ” مشکے کی تعلیمی نظام کو صیحیح کرنے کیلیے ضروری ہے ہم اپنے ارگرد کے لوگوں کے ذہین بچوں کو کسی اور شہر میں پڑھانے کے بعد اپنے ہی علاقوں یعنی مشکے کے اردگرد جتنے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں وہ اسکولز اور اکیڈمیز کھول کر لوگوں کو پڑھانے لگیں تو کل ہمارے نوجوانوں میں اتنا شعور تو ضرور ہوگا کہ ہم اپنے قوم و ڈسٹرکٹ کیلئے کچھ کر سکیں۔” مزید کہتے ہیں کہ”ان اداروں میں غریب کے بچے پڑھنے آتے ہیں، جہاں انہیں وہ تعلیم نہیں ملتی جس طرح امیروں اور بڑے بڑے ٹھیکیداروں کے بچے جو مشکے سے باہر کسی اور شہر میں پڑ ھنے سے ملتی ہے۔ اس لیے مشکے میں تعلیمی نظام کا ماحول خراب ہوتا جا رہا ہے۔”

میں خود بھی وہاں پڑھ کر باہر کسی یونیورسٹی میں آیا ہوں جہاں مختلف قسم کے نمونے پائے جاتے ہیں کچھ اپنے کورسوں کے کتب تک محدود باقی کچھ علم و دانش اور فلسفہ و ادب کی طرف گامزن ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ شعور وہی لوگ لاتے ہیں جو اپنے اندر اجتماعی مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے ہیں۔

اسی طرح وحید راہی صاحب بچوں کے درمیان ایک علم و دانش اور بحث و مباحثہ کے ماحول کو بحال کرنے میں نظر آتے ہیں۔ آپ مشکے سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں لوگوں کی سوچ و فکر ہمیشہ قوم کی خوشحالی کیلیے رہا ہے۔ آپ جیسے انسانوں کی جدوجہد کی بدولت آج ہم کچھ لکھنے اور پڑھنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ جد وجہد مسلسل جاری و ساری رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں