بلوچ بزرگ رہنماء یوسف مستی خان کو سینکڑوں سوگواروں اور سیاسی و سماجی رہنماؤں کی موجودگی میں کراچی کے لیے شاہ لطیف ٹاون میں بعداز نماز ظہر ادا کردی گئی۔
بلوچ رہنما کی رحلت پر سیاسی و طلبہ تنظیموں کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دلمراد بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پہ ٹویٹ کرتے ہوئے کہا مرحوم کی رحلت کا سن کر افسردگی محسوس ہوا، مرحوم ایک قوم پرست اور انسان دوست انسان تھے انہوں نے اہلخانہ سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔
یوسف مستی خان کا سیاسی سفر کئی دہائیوں پرمحیط تھا۔ یوسف مستی خان کا بنیادی تعلق بلوچستان کے علاقے جیونی سے تھا۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے کیا۔ جس کے بعد انہوں نے شیر باز خان مزاری کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور پارٹی کے کراچی کے صدر رہنے کے ساتھ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے بھی رکن رہے۔
یوسف مستی خان نے بعدازاں پاکستان نیشنل پارٹی اور پھر عوامی ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس کے اب وہ مرکزی صدر تھے۔
بی ایس او آزاد نے اس کے رحلت پر اپنے مختصر بیان میں کہا ہے کہ یوسف مستی خان بلوچ سیاست کی ایک عظیم شخصیت رہے ہیں۔ زندگی کے مختلف ادوار میں وہ بلوچ قومی حقوق کے ایجنڈے کے ساتھ مختلف پلیٹ فارمز پر سیاسی کارکن بن گئے اور بی ایس او اور نیپ کے نمایاں رکن کی حیثیت سے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ لیاری میں بلوچ ادب اور سیاست میں ان کی غیر معمولی خدمات ناقابل تلافی ہیں۔ انہیں بلوچ تاریخ میں ایک ممتاز سیاسی شخصیت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ یوسف مستی خان جیسے انقلابی قومپرست رہنما کا بچھڑنا بلوچ قوم سمیت تمام محکوم اقوام اور مظلوم طبقات کےلیے دکھ رنج کا باعث ہے۔ ان کی لازوال انقلابی جدوجہد یقیناً محکوم اقوام و طبقات کےلیے مشعل راہ ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ قوم آج اپنے ایک مخلص لیڈر کو کھو چکا ہے اور بالخصوص کراچی کے لوگ ایک انمول اور نایاب شخص کی دستِ شفقت و الفت سے محروم ہو چکے ہیں۔