کوئٹہ دھرنا: مزید لواحقین بیمار

418

بلوچستان کے علاقے زیارت میں رواں سال جبری گمشدہ افراد کی جعلی مقابلے میں قتل کے خلاف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گورنر ہاؤس کے سامنے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا دھرنا آج 47 ویں دن جاری رہا۔

شہر کے ریڈ زون میں جاری دھرنے میں بلوچستان بھر سے جبری طور پر گمشدہ افراد کے لواحقین شریک ہیں۔ آج جبری گمشدگی کے شکار داد محمد مری کی ہمشیرہ خیر بی بی نے دھرنے میں شرکت کی۔ وہ 9 سالوں سے لاپتہ اپنے بھائی کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

خیر بی بی نے اس موقع پر کہا کہ ہم کئی سالوں سے اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں ۔

انہوں نے اپنے بھائی سمیت دیگر ہزاروں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اپنے آئین اور عدالتوں کا لاج رکھتے ہوئے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لائے۔

خیال رہے کہ سینتالیس دنوں سے مسلسل احتجاج جاری رکھنے سے لواحقین بیمار پڑ گئے ہیں۔ احتجاجی کیمپ میں ان کی طبعی امداد آج بھی جاری رہا۔

آج اور گزشتہ دنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لواحقین کی جانب سے جاری کردہ کچھ تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سمی دین، سیما بلوچ، سعیدہ حمید، ماہ زیب، بیبو قمبرانی اور دوسرے لواحقین کی طبیعت ناساز ہے اور انہیں طبعی امداد اور ڈرپ لگایا جارہا ہے ۔

اس موقع پر لواحقین کا کہنا تھا کہ اپنے مطالبات کی حق میں احتجاج سے لواحقین بیمار ہو رہے ہیں لیکن چند قدم دور محلات میں بیٹھے بے حس حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔

احتجاجی دھرنے کی رہنمائی کرنے والی سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ “سینتالیس دنوں کے ہمارے اس دھرنے میں موجود لواحقین جو اپنے پیاروں کی بازیابی اور زیارت میں جعلی مقابلے میں مارے جانے والے جبری گمشدگیوں کے شکار لاپتہ افراد کے لیے بیٹھے ہیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مجھ سمیت تمام لواحقین اس وقت بیمار ہیں اور کیمپ میں ہی انکی طبعی امداد جاری ہے۔

انکا کہنا تھا کہ اتنی بے حس و بے بس حکمران شاید ہی دنیا کے کسی تاریخ کے اوراق میں مل جائیں ہمارا مطالبہ بس اتنا ہے ہم پر اس ریاست کے دیگر شہریوں کی طرح آئین اور قانون کا اطلاق کریں۔ کسی شہری کو سالوں تک جبری لاپتہ نہ کریں ان پر مقدمات عدالتوں کے ذریعے چلائیں۔