والد محترم سردار عطاء اللہ مینگل کی یادیں
تحریر: میر جاوید مینگل
دی بلوچستان پوسٹ
والد صاحب کہتے تھے کہ انہیں سیاست کی طرف ایک واقعہ نے راغب کیا۔ وہ کہتے تھے کہ 1956 میں وزیر اعظم بلوچستان اسٹیٹس یونین احمد یار کھنڈوہ اور دیگر حکومتی شخصیات علاقے میں روڈ کا افتتاح کرنے آرہے تھے اور ان کی ضیافت کا بندوست وڈھ میں تھا۔ بیلہ سے ہم وڈھ روانہ ہوئے کیونکہ اُس زمانے میں شاہراہ وغیرہ کچھ نہیں تھے، ایک کچی سڑک قبیلے کی مدد سے سردار عطاء اللہ مینگل اور سردار فقیر محمد بزنجو نے بیلہ سے وڈھ تک بنائی تھی تاکہ لوگوں کو سفر کرنے میں دشواری پیش نہ آئے کیونکہ اس سے قبل سڑک کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اکثر لوگ اونٹوں پر سفر کرتے تھے اور موجودہ شاہراہ کی بنیاد سردار عطاء اللہ مینگل نے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ ملکر رکھی تھی۔ اس کچی سڑک پر سفر بہت دشوار گزار تھا، سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنی گاڑی حکومتی قافلے کے آگے کردی تاکہ وہ بھٹک نہ جائیں۔ جب سب لوگ مینگل ہاؤس پہنچے اور کھانا لگ گیا تو اس دوران سردار عطاء اللہ مینگل کو بتایا گیا کہ اُن میں سے ایک آفیسر جن کا تعلق پنجاب سے ہے وہ کھانا نہیں کھا رہا، جب سردار عطاء اللہ مینگل نے ان کی ناراضگی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ کی گاڑی نے قافلے کو کراس کیا، جس کی وجہ سے دھول و مٹی ان کی گاڑی پر پڑی اور اس لئے وہ ناراض ہوگئے ہیں تو اس پر والد نے لوگوں کو منع کیا کہ انہیں کھانے کے لئے کوئی منت و سماجت نہ کرے۔ انہوں نے کہا ہمارے وطن اور ہمارے علاقے میں آکر وہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ آقا و غلام کا رشتہ رکھنا چاہتے ہیں، والد کہتے تھے کہ یہ وہ واقعہ تھا جس نے مجھے قوم پرستی کی سیاست کی جانب راغب کیا۔
ایک بار میں نے والد سے پوچھا کہ لوگ کیوں مفاد پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں اور قوم پرستی کو چھوڑ کر لالچ اور سرکاری عہدوں کا شکار ہو جاتے ہیں؟ تو والد نے کہا کہ جب آپ وطن پرستی کی سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو زندگی ایک فلم کے طرح آپ کے سامنے چلنے لگتی ہے آپ دیکھتے ہیں کہ اگر میں وطن پرستی، قوم دوستی کی سیاست کرونگا تو اس راہ میں بہت سی مشکلات ہونگی، جیل و شہادتیں، قربانیاں قدم قدم پر استقبال کرینگے جو لوگ ذہنی، فکری اور اعصابی طور پر مضبوط ہوتے ہیں، پھر وہ راستے کے رکاوٹوں، مشکلات، اذیتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہیں اور وہ ثابت قدم رہتے ہیں اور کچھ لوگ زندگی کی اس فلم میں یہ دیکھتے ہیں کہ اگر وہ وطن اور قوم کے بجائے دوسری لائن میں لگ جائیں تو انہیں بڑے عہدے، مراعات اور ذاتی مفادات مل جائیں گے اور ذاتی زندگی انہیں خوبصورت دکھنے لگتی ہے۔ پھر وہ وطن اور قوم کے لئے جدوجہد کرنے کے بجائے مفاداتی شان و شوکت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
والد صاحب نے کہا کہ نیپ کے زمانے میں ہم نے اسمبلی میں سرداری نظام کے خاتمے کا بل اس لئے پیش کیا تھا کیونکہ سرکار اسی نظام کو لے کر اپنے من پسند سرداروں کے ذریعے لوگوں کو لالچ دے کر اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی ہے۔ والد صاحب نے کہا کہ جب لوگ اپنے سردار کے کہنے پر تحریک میں شامل ہوتے ہیں تو وہ سمجھتے کہ وہ یہ جدوجہد اپنے سردار کے لئے کررہے ہیں، جس کی ایک حد ہوتی ہے وہ اپنا فرض سمجھ کر ایک حد تک سردار کی خاطر تحریک میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جتنی ہماری طاقت تھی ہم نے اپنا فرض ادا کرلیا، جو لوگ شعوری طور پر تحریکوں میں قدم رکھتے ہیں وہ اپنی جدوجہد کو کسی پر احسان نہیں سمجھتے بلکہ اپنا فرض سمجھ کر سرزمین کے لئے آخری سانسوں تک جدوجہد کرتے ہیں۔
1928 میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ سے اختلاف کے بعد انگریزوں نے خان آف قلات کے ذریعے ہمارے دادا کو زبردستی علاقہ بدر کرکے کرم خان مینگل کو سردار بنایا تھا تو ہمارے دادا نے وڈھ سے آکر لسبیلہ میں سکونت اختیار کرلی تھی، 1930 میں والد کی پیدائش لسبیلہ میں ہوئی تھی۔ بنیادی تعلیم انہوں نے بیلہ میں حاصل کی پھر مزید تعلیم کے لئے سندھ مدرسہ کراچی چلے گئے۔ جب 1952 میں والد صاحب نے ایک دن دادا سے دریافت کیا کہ آپ کیوں وڈھ نہیں جاتے اور قبیلے کو نہیں سنبھالتے، آپ کی غیر موجودگی میں ہماری تمام جائدادیں اور زرعی زمینوں پر کرم خان قبضہ کرچکا ہے، دادا نے والد سے کہا کہ خان اور سرکار کی جانب سے میرے وہاں جانے پر پابندی ہے، اس دوران والد نے کہا کہ آپ پر پابندی ہے لیکن مجھ پر پابندی تو نہیں ہے میں وڈھ جاؤں گا۔ دادا نے انہیں کہا کہ کیسے وہاں جائیں گے نہ علاقے سے اور نہ ہی لوگوں سے آپ واقف ہیں، دادا سے والد نے پوچھا کہ آپ کے کتنے بیٹے ہیں، دادا نے کہا کیوں ایسے پوچھ رہے ہو، والد کے اصرار پر دادا نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ مہر اللہ اور ضیاء اللہ یہ تین میرے بیٹے ہیں، والد نے انہیں کہا کہ میں جارہا ہوں اگر واپس آگیا تو ٹھیک ہے اگر نہیں آسکا تو سمجھنا کہ آپ کے تین نہیں دو بیٹے تھے۔
اس طرح والد 1952 میں کراچی سے سارونا کے راستے وڈھ روانہ ہوگئے اور سمان کے مقام پر کیمپ کا قیام کیا۔ اس دوران مینگل قبیلے کے متعبرین سے رابطے کرتے رہے، جب کرم خان کو معلوم ہوا تو انہوں نے خان قلات کو پیغام بھیجا اور انہیں والد کے متعلق بتایا کہ وہ علاقے میں آگئے ہیں اگر انہیں یہاں سے نہیں نکالا گیا تو بہت خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ خان نے والد کو علاقہ چھوڑنے کا پیغام بھیجا اور پھر والد وہاں سے مشکے سردار بلوچ خان محمدحسنی کے ہاں چلے گئے۔ جو اُن کے ماموں تھے، سردار بلوچ خان نے جاکر خان کو سمجھایا کہ مینگل قبیلے کے لوگ کسی صورت کرم خان کو سردار تسلیم نہیں کرینگے اور انہوں نے خان کو تجویز دی کہ الیکشن کروائیں، قبیلے کے معتبرین جس کو سردار منتخب کریں، انہیں سردار مانا جائے پھر خان الیکشن کروانے کے لئے راضی ہوگئے اور جب الیکشن ہوئے والد کو 106 جبکہ کرم خان کو صرف 16 ووٹ ملے تھے اس طرح والد مینگل قبیلے کے سردار منتخب ہوئے۔
جنرل ایوب خان کی مارشل لاء کی والد نے مخالفت کی تو وہ پھر کرم خان کو سردار بنانا چاہتے تھے، قبیلے کے لوگ اس فیصلے کے خلاف مشتعل تھے، انہوں نے کرم خان کو قتل کردیا اور اس الزام میں دادا سمیت ہمارے پورے خاندان کو قبیلے کے 400 افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔
ایوب خان کے زمانے میں والد اور میر غوث بخش بزنجو کراچی سینٹرل جیل میں قید تھے اور آج بھی مجھے یاد ہے جب پہلی بار ہمیں والد صاحب سے ملاقات کے لئے سینٹرل جیل لیجایا گیا۔
میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر سمیت دیگر سیاسی رہنماء جب کراچی آتے تھے تو ہمارے گھر میں ٹہرتے تھے، گھر سیاسی سرگرمیوں کی آماجگاہ تھی، دادا ہمیشہ والد صاحب کو طنزیہ طور پر کہتے تھے آپ کے لاڈلے آئیں ہیں، یہ آپ کے ساتھی پتہ نہیں کیا سیاست کرتے ہیں اور آپ کو پتہ نہیں کہاں لے جائیں گے۔ دادا کے انہی باتوں کی وجہ سے والد نے گھر الگ کیا کہ کہیں والد میرے دوستوں پر ناراضگی کا اظہار نہ کر دیں، پھر ہم ناظم آباد دوسرے گھر میں منتقل ہوگئے، جہاں گھر کا ایک حصہ میر غوث بخش بزنجو اور گل خان نصیر سمیت دیگر سیاسی اکابرین کے لئے مختص تھا اور نواب اکبر خان بگٹی اکثر والد سے ملنے آیا کرتے تھے۔
اسمبلی میں ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف 1962 میں والد نے تقریر کی تھی، جس کے وجہ سے ایوب خان کافی ناراض ہوئے تھے، اُس کے بعد ایک تقریب میں جہاں تمام اراکین اسمبلی بھی مدعو کئے گئے تھے، تقریب میں والد صاحب، نواب مری اور سردار بلخ شیر مزاری بھی موجود تھے، جب تقریب میں ایوب خان آئے تو تمام اراکین نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا لیکن اس دوران والد اپنی نشت پر بیٹھے رہے۔ اس دوران ایوب خان نے ان کی طرف دیکھا اور نواب مری نے ان سے دریافت کیا کہ مینگل تمہارے دل میں کچھ ہے یا ہمیں آزما رہے ہو؟ تو اس پر والد نے نواب مری سے کہا کہ میں کسی کو نہیں آزما رہا، بس میں اس کے استقبال کے لئے کھڑا نہیں ہونگا تو نواب نے کہا کہ اگر آپ نہیں اٹھتے تو میں بھی اپنی کرسی سے نہیں اٹھونگا، پھر ایوبی مارشل لاء کے خلاف کنکری گراؤنڈ کراچی میں تقریر کرنے کی پاداش میں والد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
جب ایوب خان کے زمانے میں میر غوث بخش بزنجو کو گرفتار کیا گیا اور ان پر الزام تھا کہ ان کے جیب سے ایک نوٹ برآمد ہوا ہے جس پر تحریر تھا “ون یونٹ” توڑ دو اس جرم میں انہیں کوڑے اور جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ اگر جرمانہ ادا نہیں کیا جاتا تو انہیں کوڑے مارے جاتے، والد صاحب کہتے تھے کہ اُس زمانے میں 10 ہزار جرمانہ ادا کرکے میر صاحب کی رہائی ممکن بنائی گئی اور یہ رقم والد نے کچھی کے اپنے زرعی زمینوں کی آمدنی سے ادا کی تھی.
جب ون یونٹ ختم ہورہا تھا اُس زمانے میں خان آف قلات نے تمام سرداروں کا ایک جرگہ طلب کیا، جب والد صاحب کو جرگے میں شرکت کی دعوت دی گئی انہوں نے شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں خان کے جرگے میں شرکت نہیں کرونگا کیونکہ خان اب اپنے مراعات اور مفادات کے لئے ہمیں استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن سردار بلوچ خان محمدحسنی، سردار فقیر محمد بزنجو اور دیگر سردار صاحبان کے اصرار کرنے پر والد جرگے میں شرکت کرنے پر راضی ہوگئے انہوں نے سرداروں کے سامنے ایک شرط رکھی تھی کہ جرگے کے اعلامیہ پر میں دستخط نہیں کرونگا، تمام سرداروں نے والد کو یقین دہانی کرائی کہ اس شرط سے ہم نے خان کو آگاہ کیا ہے، دستخط کے بارے میں کوئی آپ سے بات نہیں کرے گا لیکن آپ جرگے میں شرکت کریں۔
جرگے کے پہلے دن خان آف قلات نے شرکت نہیں کی تھی اُس کے ترجمان محمود عزیز کرد نے جرگے کے اغراض و مقاصد سے شرکاء کو آگاہ کرنے کے لئے تقریر کیا انہوں نے اپنے تقریر میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ مینگل قبیلہ تاحال خان کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں وہ خان سے بغض رکھتے ہیں۔ والد نے کہا کہ میں خاموش رہا اور دوسرے دن شرکت سے معذرت کرلی لیکن پھر سرداروں نے دوبارہ مجھے شرکت کرنے کے لئے مجبور کیا اور پھر مجھے یہ یقین دہانی کرایا کہ آج خان قلات کے مراعات کی بحالی کے لئے جرگے میں بات نہیں ہوگی، والد کہتے ہیں کہ میں نے سرداروں کی یقین دہانی پر جرگے میں شرکت کے لئے گیا، دوسرے دن جب خان جرگے میں آئے تو اس دوران خان اور والد صاحب کے درمیان مکالمہ ہوا تھا، والد سے خان نے کہا تھا بابو آپ کیوں ناراض ہیں؟ کیا وجہ ہے مجھے بتائیں تو والد نے انہیں کہا کہ میں ناراض نہیں ہوں، خان نے کہا کہ آپ محمود عزیز کرد کی باتوں کو دل پر لے کر ناراض ہوگئے ہو اُن کے باتوں پر دھیان نہ دیں تو والد نے خان کو کہا کہ منہ تو ان کا تھا لیکن باتیں آپ کی تھیں۔ اس دوران خان نے دوبارہ والد سے کہا آپ بتائیں آپ کیوں ناراض ہیں؟ اگر آپ کو کوئی شکوہ ہے مجھے بتائیں، والد نے انہیں کہا تھا چھوڑیں میں خاموش رہوں تو یہ میرے لئے اور آپ کے لئے بہتر ہوگا۔ خان کی مسلسل اصرار کرنے پر والد نے انہیں کہا کہ بلوچستان کی تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی جس طرح آپ نے بلوچوں کی مرضی کے برعکسں الحاق کے کاغذوں پر دستخط کرکے پاکستان میں شامل کیا اور آپ نے ون یونٹ کے وقت بھی قول کیا تھا کہ میں اس کے حق میں دستخط نہیں کرونگا مگر آپ نے کی اور اب دوبارہ اپنے زاتی مراعات کی خاطر سرداروں سے اس کاغذ پر دستخط لے رہے ہو ُ جس پر خان صاحب کے چہرے کا رنگ ہی اڑگیا اور کہنے لگے ک مت کرو دستخط دفع کرو اس کاغذ کو، بس اس کے بعد ہم مشکے روانہ ہو گئے۔
جب والد صاحب اور ذوالفقار بھٹو کے درمیان اختلافات ہوئے تو انہوں نے بلوچستان حکومت کو ختم کرنے کے لئے مختلف سازشیں رچائیں، بیلہ میں جام غلام قادر کے ذریعے ٹیلی فون تاریں کاٹی گئیں، پھر لوگوں کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا تاکہ امن و امان کا مسئلہ پیدا کرکے نیپ کی حکومت کو ختم کیا جاسکے، بلوچستان حکومت نے ملیشیا فورس کو بیلہ میں کارروائی کے لئے طلب کیا لیکن ملیشیا فورس وفاقی حکومت کے ماتحت تھی اور بلوچستان حکومت کے تعاون سے انکار کیا۔ پھر بلوچستان حکومت نے دیہی فورسز اور قبائل کے لوگوں کو بیلہ بھیجا اس واقعہ کو جواز بناکر بھٹو نے بلوچستان میں فوج کشی شروع کی اور اسلام آباد عراقی سفارت خانے سے ہتھیار برآمد کرنے کا ڈرامہ رچاء کر منتخب حکومت کو ختم کرکے گورنر راج نافذ کیا۔ والد سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں جن میں نواب خیر بخش مری، گل خان نصیر، میر غوث بخش بزنجو شامل تھے انہیں گرفتار کرکے پنجاب کے مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا، حکومت کے خاتمے اور رہنماؤں کی گرفتاری کے ردعمل میں لوگ پہاڑوں پر چلے گئے اور اس طرح بغاوت کا آغاز ہوا، بھٹو نے سیاسی و مسلح مزاحمت کو کچلنے کے لئے بھر پور فوجی طاقت کا استعمال کیا۔ مہر اللہ مینگل، ضیاء اللہ مینگل اور اسلم جان گچکی سمیت بہت سے لوگ افغانستان چلے گئے۔
1975 میں والد کو جب چیک اپ کے لئے جناح ہارٹ سینٹر لاتے تھے اس دوران اسد مینگل نے بھی والد سے وہاں ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ کچھ لوگ گاڑیوں میں میرا تعاقب کرتے ہیں، والد نے انہیں کہا کہ آپ محتاط رہیں۔
6 فروری 1976 کو اسد اللہ مینگل کو سردار بلخ شیر مزاری کے گھر کے باہر سے اُن کے دوست احمد شاہ کے ہمراہ اغواء کیا گیا، اسد صبح گھر سے چلے گئے وہ اکثر احمد شاہ کے ہاں جایا کرتے تھے، ایک شام کو وہ سردار بلخ شیر مزاری کے گھر چلے گئے جہاں وہ کسی کے فون کے انتظار میں تھے۔ اسی دوران بجلی چلی گئی، اسد اور احمد شاہ باہر آکر گاڈی میں بیٹھ گئے، دو گاڈیوں میں سوار فوج کے اسپیشل کمانڈوز گلی میں اندر گھس گئے، انہیں دیکھ کر وہ اپنی کار کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی تو اس دوران مسلح افراد نے اُن پر فائرنگ کھول دی، کار بے قابو ہوکر دیوار سے ٹکرائی، اس دوران مسلح افراد گاڑی سے اتر کر اسد اور احمد شاہ کو اپنے گاڑی میں ڈال کر لے گئے، عینی شاہدین کے مطابق ایک کے سر میں گولی لگی تھی اور شبہ یہ تھا کہ احمد شاہ کو گولی سر میں لگی تھی اور اسد زخمی ہوگئے تھے۔
واقعہ کی رات دو بار کچھ سرکاری لوگ اسد کا پتہ کرنے گھر آئے تھے کہ اسد کہاں ہے؟ اس دوران میں، اختر مینگل، چنگیز کرد اور حافظ لال بخش بروہی جو پیدائشی نابینا تھا وہ گھر پر تھے، ہم نے انہیں بتایا کہ وہ یہاں گھر پر نہیں ہیں، اُس وقت تک ہمیں پتہ نہیں تھا کہ یہ واقعہ ہوا ہے، دوسری بار ایک جیپ میں کچھ لوگ آئے وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اسد کو ڈھونڈ رہے ہیں انہوں نے کسی پر فائرنگ کی ہے اور ہمیں ایک تصویر دکھائی جو اسد کے دوست شوکت کی تھی اسد نے اپنی کار ان کے گھر پر کھڑی کرکے ان کی کار میں چلے گئے تھے۔ جب ہم نے انہیں کہا کہ ہم نہیں جانتے اس بندے کو پھر وہ چلے گئے، دوسرے دن ہمیں معلوم ہوا کہ اسد اور احمد شاہ کو فوج لے گئی ہے۔ یہ پتہ نہیں تھا انہیں اغواء کرکے کہاں لے گئے اور دوسرے دن پھر کچھ لوگ آئے انہوں نے اسد کی عینک اور ایک پستول لائے کہ یہ اُن کی کار سے برآمد ہوئے ہیں، اسد کے اغواء ہونے کے بعد مجھے اور اختر مینگل کو فیملی کو سنبھالنا تھا، حافظ لال بخش بروہی بھی ہمارے ساتھ تھے، بعد میں اس نابینا کو بھی بھٹو نے نہیں بخشا انہیں گرفتار کرکے بیلہ میں قید کردیا گیا۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے اے آر وائی پر ایک پروگرام میں اعتراف کیا تھا کہ اسد کو زخمی حالت میں مظفر آباد کشمیر دلائی کیمپ لائے تھے اور تشدد میں اس کی موت واقع ہوئی۔
اس دوران جب ہم اسکول جاتے اور اسکول سے واپس گھر آتے تو خفیہ اداروں کے لوگ ہمارا پیچھا کرتے اور ہمیشہ گھر کے باہر آکر اپنی گاڈی کھڑی کرتے اور جو لوگ بھی گھر آتے تو اُن سے پوچھ گچھ کرتے، انہیں مختلف طریقوں سے تنگ کرتے تھے۔
1976 میں حیدر آباد سازش کیس کا آغاز کیا گیا اور تمام گرفتار رہنماؤں کو حیدر آباد جیل منتقل کیا گیا اور کیس کی سماعت کے لئے کورٹ جیل کے اندر قائم کیا گیا، ہم اکثر پیشیوں پر ملاقات کے لئے جاتے تھے ایک دفعہ ہم ملاقات کرکے واپس کراچی جارہے تھے اور راستے میں پانی پینے کے غرض سے گاڈی روکی تو اس دوران کیس کی سماعت کرکے جج واپس پولیس اسکواڈ کے ساتھ آرہے تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھ کر اپنی گاڑیاں روک لیں اور پھر واپس چلے گئے، دوسرے دن اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں میں شائع ہوئی کہ منیر مینگل، جاوید مینگل اور ان کے ساتھی ججوں کو اغواء کرنا چاہتے تھے۔ پھر ہمیں کراچی بدر کرنے کے احکامات جاری کئے گئے، جس کے ردعمل میں والد نے اس وقت کے چیف منسٹر سندھ غلام مصطفیٰ جتوئی کو ایک خط لکھ کر اُن کے لئے سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔
جس دن کیس کی سماعت ہوتی تو اُس دن ہم لوگ ملاقات کے لئے جاتے جیل انتظامیہ نے ملاقاتیوں کے لئے کورٹ کے درمیان تین فٹ کی سلاخیں لگائیں تھیں، پھر ملاقاتیوں اور جیل میں قید افراد کے درمیان رکاوٹ حائل کرنے کے لئے سلاخوں کے بجائے درمیان میں لوہے کی دیوار کھڑی کردی تاکہ پیشی کے دوران ایک دوسرے سے مل نہ سکیں، جب رہنماؤں اور کارکنوں کو سماعت کے لئے لایا گیا انہوں نے لوہے کی دیوار کو دیکھ کر شدید غصے کا اظہار کیا اور توڑ پھوڑ کی اور دیوار کو گرانے کی کوشش کی اور یہ صورتحال دیکھ کر جج سماعت چھوڑ کر چلے گئے۔ کارکنوں کی شدید احتجاج کے بعد جیل انتظامیہ نے لوہے کی دیوار ہٹالی اور پھر جالی لگالی۔
ایک نوجوان سندھی سپرینڈڈنٹ تعینات کیا گیا تھا، جو دوران سماعت بغیر یونیفارم کے کورٹ میں پیش ہوئے تھے، جس پر جج نے ان کی سرزنش کی تھی، سپریٹینڈنٹ نے جج سے کہا کہ میں ڈیوٹی پر نیا ہوں آئندہ خیال رکھونگا، جب کورٹ سے وہ باہر نکلے تو ولی خان نے سپریٹینڈنٹ سے پوچھا تھا کہ آپ کیوں عدالت میں ایسے آئے ہو، اس موقع پر نواب خیر بخش مری نے انگریزی میں کہا کہ یہ بندہ کہہ رہا ہے کہ میں نیا ہوں اور سیکھ رہا ہوں، پھر اس نے نواب کو جواب دیا نیا ہوں لیکن آپ کو سبق سکھا سکتا ہوں، جس پر نواب نے انہیں ایک تھپڑ رسید کیا، پھر اس دوران وہاں موجود بلوچ و پشتون سیاسی قیدیوں نے سپرینڈنٹ پر لاتوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کرکے انہیں شدید زخمی کیا۔
بھٹو ہمیشہ اپنے قاصد حیدر آباد جیل بھیجا کرتا تھا کہ نیپ کے رہنماؤں کو مذاکرات کے لئے راضی کریں، والد نے کہا کہ ہم سب نے مشورہ کیا تھا کہ آئندہ بھٹو کے قاصدوں سے کوئی نہیں ملے گا، یہ ہمارے ساتھ مذاق کررہے ہیں۔ والد صاحب کہتے تھے کہ میر بزنجو صاحب نے شروع میں تحریک میں فعال کردار ادا کیا اور قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے زمانے میں ان کا اہم کردار تھا لیکن اُن کے بیٹے بیزن اور حاصل جوان ہوئے تو انہوں نے میر صاحب کو وفاق پرستی کی سیاست کی جانب لے گئے۔
جب ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کیا اور انہوں نے حیدر آباد سازش کیس ختم کرکے نیپ کے تمام رہنماؤں کو رہا کرنے کا اعلان کیا۔ رہائی کے بعد والد صاحب نے بسلسلہ علاج لندن جانے کا فیصلہ کیا تو میر غوث بخش کو علم ہوا کہ سردار عطاء اللہ مینگل لندن جارہے ہیں، انہوں نے والد صاحب سے کہا آپ جارہے ہیں میں یہاں کیا کرونگا؟ والد نے انہیں کہا کہ آپ نہیں آرہے تو آپ یہاں رہ کر سیاست کریں، میر صاحب کا مؤقف تھا کہ آپ جارہے ہیں تو میں کس طرح پارٹی بناونگا جب تک میں آپ کو جانے نہیں دونگا آپ مجھے پارٹی بنانے میں مدد نہیں کرتے۔ جب میر بزنجو نے این ڈی پی بنائی تو پریس کانفرنس میں والد صاحب موجود تھے، پھر والد صاحب برطانیہ چلے گئے، چند ماہ کے بعد نواب مری بھی وہیں منتقل ہو گئے، جنوری 1981 میں ہم اور نواب مری کی فیملی بھی برطانیہ چلے گئے، بعد میں نواب مری اپنے خاندان کے ہمراہ افغانستان چلے گئے۔
دوران جلاوطنی 1980 کی دہائی میں انہوں نے لندن میں قادر بخش نظامانی، اکبر بارکزئی اور وہاں مقیم بلوچوں کیساتھ ملکر ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن بنائی اور انہوں نے ماہنامہ آزاد بلوچستان کا اجراء کیا۔ قادر بخش نظامانی اور اکبر بارکزئی اخبار پبلیش کرتے اور خلیج اور یورپ بھیج دیتے تھے اور میں بزریعہ ڈاک بلوچستان شمارے بھیجا کرتا تھا، کچھ عرصہ بعد والد نے عید محمد کرد کو WBO کی زمہ داریاں سونپی۔
والد صاحب چھوٹی قومیتوں کی اتحاد کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے وہ سمجھتے تھے کہ ہم سب ملکر پنجاب کی بالادستی سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں، والد صاحب کی ہمیشہ یہ کاوش رہی اس سلسلے میں انہوں نے ممتاز بھٹو کے ساتھ ملکر سندھی،بلوچ، پشتون فرنٹ کی بنیاد رکھی، بلوچ، سندھی فورم بنائی پھر بلوچستان آکر مظلوم اقوام کی تحریک پونم بھی بنائی تھی، ان کا خیال تھا کہ جب تک مظلوم قوتیں یکجاء نہیں ہونگی، تب تک اپنے حقوق حاصل نہیں کرسکیں گی، والد نے ایک ملاقات میں بینظیر کو بھی کہا تھا کہ وہ پنجاب کی سیاست ترک کرکے صرف سندھ کی سیاست کریں، ملکر مظلوم قومیتوں کی حقوق کے لئے جدوجہد کریں تو ہمیں کامیابی حاصل ہوگی۔ پشتونوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ رونے میں پشتون ہمارے ساتھ ہیں اور فوج، ایف سی و بیوروکریسی کا حصہ بن کر استحصال میں بھی حصہ دار ہیں۔
جب جلاوطنی کے بعد والد واپس بلوچستان آئے، اس دوران نواب مری بھی جلاوطنی ختم کرکے واپس آگئے تھے تو سیاسی کارکنوں و دیگر لوگوں کا اصرار تھا کہ سردار عطاء اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری مل کر ایک پارٹی بنائیں، سیاسی کارکن اس کوشش میں تھے کہ دونوں رہنما ملکر جدوجہد کریں، اس دوران سریاب میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس میں والد اور نواب مری دونوں شریک ہوئے وہاں بھی لوگوں نے دونوں رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ ملکر ایک پارٹی بنائیں، لوگوں کی اس شدید خواہش کے تناظر میں والد صاحب بھی یہ چاہتے تھے کہ نواب مری کیساتھ ملکر پارٹی بنائی جائے لیکن نواب صاحب راضی نہیں ہوئے، نواب صاحب کا موقف تھا کہ پارٹی سیاست سے ہم اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکیں گے۔
اس کے بعد حاصل بزنجو اور ثناء اللہ زہری نے والد سے رابطوں کا آغاز کیا اور وہ چاہتے تھے کہ بی این ایم اور پی این پی کا ادغام کرکے ایک پارٹی تشکیل دیں، والد صاحب وڈھ میں تھے تو یہ لوگ وہاں تشریف لائے۔ اسلم جان گچکی، اختر مینگل اور میں نے والد صاحب کو کہا کہ یہ صرف الیکشنوں اور نشستوں کے لئے اتحاد اور پارٹی بنانے کی بات کررہے ہیں، ان کیساتھ اتحاد ہمارے سیاست کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا لیکن والد صاحب کا موقف تھا کہ اگر بلوچستان کے لئے ہم ایک ساتھ ہوں اس میں کوئی برائی نہیں ہے، اگر کل یہ لوگ واپس پارٹی چھوڑ کر جائیں گے بھی تو صرف اپنے کان اپنے ساتھ لیکر جائیں گے، پھر 1996 میں دونوں جماعتوں کی انضمام کی صورت میں بی این پی قیام میں لائی گئی اور انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری اور بلوچستان میں حکومت بنائی، بزنجو برادران کی نیت شروع سے صاف نہیں تھی لیکن بلوچستان میں ایٹمی دھماکوں کے دوران یہ اختلافات کُھل کر سامنے آئے۔
جب ایٹمی دھماکے ہوئے تو میں، اسلم جان گچکی اور کچھ ساتھی کراچی میں موجود تھے، والد صاحب کا مؤقف تھا کہ اب ہم مرکز کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے، اختر مینگل کو حکومت سے استعفیٰ دینا چاہیے لیکن کسی ساتھی نے والد کو مشورہ دیا کہ اگر پارٹی کو اعتماد میں لئے بغیر یہ فیصلہ آپ کرینگے تو پارٹی ٹوٹ جائے گی بہتر ہے کہ سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بُلا کر فیصلہ لیا جائے، پھر پارٹی کا ہنگامی اجلاس کراچی میں بلایا گیا، اجلاس میں والد نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم مزید نواز شریف حکومت کیساتھ بطور اتحادی نہیں چل سکتے، ہمیں حکومت چھوڑ دینا چاہیے اور اس دوران انہوں نے ایک قصہ بیان کیا کہ ایک شخص اپنے سائیکل پے جارہا تھا تو راستے میں اسے ایک چور نے نے روکا اور کہا کہ جیب سے سامان نکالو، پھر اس کے ہاتھ سے گھڑی اتاری پھر کہنے لگا کہ قمیض اور بنیان بھی اتارو، اب بچی صرف ایک شلوار تھی، وہ بھی چور نے کہا کہ اتارو سر کے اوپر سے، والد نے کہا کہ اب یہ پنجابی بھی ہم سے کچھ اس طرح کا مطالبہ کررہے ہیں ایک چیز جو ناممکن ہے وہ ہم سے کروانا چاہتے ہیں جو ہم نہیں کرسکتے۔
اس دوران بیزن بزنجو اُٹھ کر کہنے لگے سردار صاحب حکومت نہیں چھوڑیں گے البتہ اگر شلوار سر کی طرف سے اُتارنی ہے تو وہ بھی ہم اتاریں گے۔ یہ بات سُن کر والد صاحب نے کہا کہ اب بات کرنے کی کچھ گنجائش ہی نہیں چھوڑی اب میں کیا بولوں آپ لوگوں کو، اس طرح پھر اختلافات شدت اختیار کرگئے اور 1998 میں پارٹی کے پہلے قومی کونسل سیشن کے موقع پر بی این پی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔
خان نوری نصیر خان کے پڑاؤ کا مقام (خان ئنا خت) کی جگہ اور علاقے سے والد صاحب کو خاص لگاؤ تھا، وہ خان نوری نصیر خان کی بہادری، شجاعت اور کردار سے بہت متاثر تھے، جب وہ جلاوطنی کے بعد 1991 میں واپس آئے تھے، ایک دن انہوں نے کہا کہ چلو لوئی چلتے ہیں۔ لوئی اس علاقے کا نام ہے، جہاں (خان ئنا خت) واقع ہے، ہم وہاں چلے گئے، وہ اس مقام پر گھر بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے وہاں گھر کے لئے زمین کی نشاندہی کی اور مجھے کہا کہ گھر کا نقشہ بنوائیں، میں نے کراچی جاکر نقشہ بنوایا پھر انہوں نے وہاں گھر بنانے کا کام بھی شروع کروایا تھا۔ درمیان میں گھر کی تعمیر کو ادھورا چھوڑ دیا، کچھ سال بعد میں نے والد سے کہا کہ آپ گھر کیوں نہیں بنا رہے اور کام درمیان میں چھوڑ دیا ہے؟ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں وہ گھر بنانا چاہتا ہوں تو انہوں نے حامی بھر لی۔ ہم وہاں چلے گئے۔ واپسی پر انہوں نے مجھے کہا کہ یہ گھر آپ کو نصیب ہو لیکن مجھے یہاں 6 فٹ زمین چاہیے، یہ سن کر میں نے انہیں کہا بابا آپ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں، انہوں نے کہا مرنا سب کو ہے، میں نے انہیں کہا کہ آپ ایسی باتیں نہ کریں اللہ آپ کو زندگی دے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہم والد کے بغیر بھی دنیا میں اکیلے زندہ ہونگے۔ وہ کسی کے مرنے کا سُنتے تو کہتے تھے کہ سب ہمیں سنا رہے ہیں، ایک دن ہم بھی لوگوں کو سنائیں گے۔
والد صاحب سے اکثر فون پر بات چیت ہوتی رہتی تھی، ایک بار میں نے اُن سے بات کی تو والد نے مجھے کہا کہ آپ لوگ اور بچے یاد آتے ہیں۔ آپ نے ایسا راستہ اختیار کیا ہے کہ یہاں نہیں آسکتے، میں نے انہیں کہا کہ بابا ہم ایسا کوئی کام نہیں کرینگے اور ایسے راستے پر نہیں جائیں گے کہ لوگ ہماری وجہ سے آپ کو طعنہ دیں، انہوں نے مجھے کہا مجھے پتہ ہے کہ آپ نے کوئی غلط راستہ اختیار نہیں کیا ہے کہ کوئی مجھے طعنہ دے۔
انہیں چیک اپ کے لئے آنا تھا لیکن وہ نہیں آ سکے جب میں نے انہیں کہا کہ بابا آئیں چیک اپ کے لئے تو انہوں نے مجھے کہا کہ اب مجھے علاج کا کوئی شوق نہیں رہا لیکن آپ سے اور بچوں سے ملنے آؤنگا، لیکن کرونا کے دوران وہ آنے کے لئے تیار تھے فلائیٹ سروس بند ہونے کی وجہ سے وہ نہیں آسکے بلکہ ہمیں ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں