بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دلمراد بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پنجگور میں میوزک کنسرٹ کو روایات کے خلافقرار دے کر روکنا ہمارے سالوں سے ان خدشات کو درست ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پاکستان اپنے مذموم مقاصد کے لیے مذہباور مذہب کے نام پر بنائے گئےمسلح جھتوں کو قومی تحریک کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ قابض ریاست مذہب کوبلوچ تہذیب و ثقافت، روایات اور بلوچ اقدار کومٹانے، انھیں مسخ کرنے اور مٹانے کے لیے بروئے کار لا رہی ہے۔ پنجگور میں یہ اپنینوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ وہاں فرقان الاسلام کے نام سے آئی ایس آئی کے پالے ہوئے کارندوں نے اسکولوں پر حملے کیے ہیں اورلڑکیوں کی تعلیم پر روک لگانے کی کوشش کی ہے۔
دلمراد بلوچ نے کہا کہ پنجگورمیں 24 ستمبر کو الطاف ساجد اکیڈمی کی جانب سے ایک میوزیکل ثقافتی پروگرام منعقد کیا جا رہا تھاجس کے خلاف علماء کے نام پر سرکاری مشینری اور ریاستی افواج کے آلہ کار ڈیتھ سکواڈ نے مداخلت کرکے میوزک کنسرٹ کو نہصرف روک دیا بلکہ سرکاری کارندوں نے ایک دھمکی آمیز ویڈیو میں اسے غیرت پر حملہ قرار دیکر منتظمین کو قتل کرنے کی دھمکیبھی دی ہے۔
انھوں نے کہا اگر نام نہاد علماء اسلامی اور بلوچی روایات کی بات کرتے ہیں تو انھیں سب سے پہلے پاکستانی حیوانیت اور سفاکیتکے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے جو دن کی روشنی میں گھروں پر حملہ کرکے عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں اٹھا کر جبری لاپتہکرتے ہیں۔ اگر وہ روایات کی ٹھیکیدار بنتے ہیں تو انھیں نورجان کی جبری گمشدگی اور ملک ناز جیسی معصوم خواتین کی شہادتوںپر ردعمل دکھانا چاہیے تھا۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ ان واقعات پر ردعمل نہیں دکھاتے کیونکہ یہاں ان کے آقاؤں کی دل آزاریہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ زبان، روایات اور ثقافت کو اجاگر کرنے میں موسیقی اور گلوکار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاںمیڈیا پر بلوچ قوم، بلوچ تہذیب وثقافت سے متعلق کوئی معلومات اور آگاہی پروگرام نہ ہوں وہاں اس طرح کے پروگراموں کا انعقادثقافتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انھیں روکنا کلچرل نسل کشی ہے۔ یہ پاکستان کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحتمختلف طریقوں سے نسل کشی کی جارہی ہے۔
بی این ایم سیکریٹری جنرل نے کہا، ہم حقیقی علما کرام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچ نسل کشی ، بلوچ ثقافتی نسل کشی سمیتانسانیت کے خلاف جرائم پرپاکستان کے خلاف علماءحق کا کردار ادا کریں اورپاکستان کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے بلوچقومی تحریک کے دست و بازوبنیں۔ ہم خبردار کرتے ہیں، اگر قومی تحریک اور قومی ثقافت نہ رہے تو یہ ہماری قومی موت کے مترادفہوگا۔