مسلح جتھوں کے رحم وکرم پر لہولہان پنجگور ۔ سفرخان بلوچ (آسگال)

508

مسلح جتھوں کے رحم وکرم پر لہولہان پنجگور

تحریر:سفرخان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

رواں ہفتے پنجگور میں قتل کے دو واقعات وقوع پذیر ہوئے، ان میں ایک شخص گھریلو تنازع کی وجہ سے قتل ہوا اور دوسرے شخص کو مسلح ڈاکووں نے ڈکیتی کے دوران قتل کردیا۔ نوجوانوں کا اس طرح قتل ہونا ایک المیہ ہے لیکن پنجگور میں تسلسل کے ساتھ اس طرح کے واقعات وقوع پذیر ہورہے ہیں اور دو سال کے دورانیئے میں پچاس سے زیادہ لوگ قتل ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں مسلح جھتوں کو ریاستی حمایت حاصل ہے اور انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے، جس وجہ سے بلوچستان کے حالات سخت مخدوش ہوتے جارہے ہیں۔

ایک منظم منصوبے کے تحت پنجگور کے مختلف علاقوں میں مسلح ڈیتھ اسکواڈ کے گروہ تشکیل دیے گئے ہیں اور انہیں بلوچ آزادی پسندوں کا راستہ روکنے کی شرط پر کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔ انہیں چوری، راہزنی ، اغوا برائے تاوان اور قتل کرنے کی آزادی ہے۔

گذشتہ دنوں پنجگور چتکان بازار سے جہاں پولیس اسٹیشن اور ایف سی کیمپ چند گز کے فاصلے پر قائم ہیں، ایک مسلح گروہ کے درجن بھر افراد دن دھاڑے آکر ایک دکان سے لاکھوں روپے لوٹ کر باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جس سے واضح ہوتا ہے ہیکہ اِن جھتوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔

اِن مسلح جتھوں کی تشکیل کی وجوہات جاننے کے لئے ہمیں کچھ سال پہلے کی سیاسی تاریخ کے نشیب و فراز کا مشاہدہ کرنا ہوگا کیونکہ ریاست نے ہماری سیاسی جدجہد کو ختم کرنے کے لئے اِں گروہوں کو منظم کیا تھا۔

بلوچستان کی سیاست میں پنجگور کا ایک اہم مقام ہے، نیب کی گورنمنٹ سے آج تک پنجگور نے سیاسی محاذ پر اہم کردار ادا کیا لیکن حقیقی قوم دوست قوتوں کے جبری گمشدگیوں اور شہادتوں کے بعد اب پارلیمانی پارٹیاں اپنی باری کی انتظار میں ہوتی ہیں۔ نیشنل پارٹی اور بی این پی عوامی ہر پانچ سال بعد اپنی باری پر بلوچستان کے نام نہاد اسمبلی میں منتخب ہوتے ہیں۔

شہید نواب اکبر بگٹی کی شہادت پر جہاں پورے بلوچستان کے حالات بدل گئے وہیں پنجگور میں بھی بڑے پیمانے پر لوگ آزادی کی تحریک سے منسلک ہوئے اور تحریک کے عروج پر ان پارلیمانی پارٹیوں کی حیثیت ثانوی رہ گئی۔

پنجگور میں ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کی تشکیل مقبول شمبے زئی نامی شخص نے کیا جو اُس وقت بلوچ آزادی پسند تنظیموں سے منسلک تھا۔ مقبول شمبے زئی کو کرپشن اور دیگر وجوہات کے بنا پر تنظیم کے سامنے احتسابی عمل سے گزرنا تھا لیکن وہ تنظیم ؤ تحریک سےمنحرف ہوکر ریاستی صفوں میں شامل ہوگیا۔

ریاستی صفوں میں شامل ہونے کے بعد انہیں اور اُن جیسے لوگوں کو ملا کر ایک مسلح جتھا تشکیل دیا گیا جنہیں سیاسی کارکنوں کے جبری گمشدگی سمیت چوری، راہزنی ، اغوا برائے تاوان اور قتل کرنے کی مکمل چھوٹ دی گئی تاکہ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کیا جا سکے۔

دوہزاہ تیرہ کے الیکشن کا بلوچ قوم نے بائیکاٹ کیا جس میں چار ہزار ووٹ لینے والے ڈاکٹر مالک، راحیل شریف اور نواز شریف کی آشیرباد سے بلوچستان کے وزیر اعلی منتخب ہوئے اور موجودہ وزیر اعلی بلوچستان قدوس بزنجو آواران کے نشست سے صرف چار سو ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت پنجگور میں بی این پی عوامی اپنے پانچ سال مکمل کرچکا تھا اور نیشنل پارٹی کی باری تھی۔ بقول ڈاکٹر مالک دوہزاہ تیرہ میں نیشنل پارٹی میں کچھ جیتنے والے گھوڑے ( سردار ) شامل کئے گیے اور منشیات کے بڑے مافیاز کی معاشی مدد کے ساتھ نیشنل پارٹی کو بلوچستان اسمبلی میں عددی برتری دی گئی۔ نیشنل پارٹی نے ڈھائی سال وزارت اعلی اور پانچ سال حکومت کا مزہ لیا، پنجگور سے منتخب نیشنل پارٹی کے رحمت صالح وزیر صحت رہ کر کرپشن کی تاریخ رقم کرتے رہے۔

شہید نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد جہاں لوگ دھڑا دھڑ بلوچ تحریک سے منسلک ہورہے تھے وہیں پنجگور میں نیشنل پارٹی کے رہنما رحمت صالح کے کچھ عزیر ؤ اقارب بلوچ تحریک آزادی کے جہد سے منسلک ہوئے۔ تحریکی ساتھیوں کی غلطی کہیں یا نادانی انہی افراد میں سے باسط عرف میجر کو ایک مزاحمتی تنظیم نے مرکزی ذمہ داریاں تفویض کی، باسط عرف میجر کے کمان میں پنجگورسمیت سی پیک کا اہم روٹ بھی شامل تھا۔

ڈاکٹر عبدالمالك نے اپنے وزارت اعلی کے دوران نواز شریف ( وزیر اعظم پاکستان ) کے ساتھ چین میں جاکر سی پیک منصوبوں پہ دستخط کئے۔ سی پیک کا ایک اہم منصوبہ سوراب – گوادر روڈ کی تعمیر بھی تھا جو سی پیک روڑ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سی پیک روڈ جن علاقوں سے گزر رہا ہے وہاں دو ہزار تیرہ میں مسلح تنظیموں کا مضبوط ہولڈ تھا اور کوششوں کے باوجود بھی ریاست پاکستان روڑ مکمل کرنے میں ناکام تھا۔ ڈاکٹر مالک کے دور میں عام معافی یعنی سرنڈر اعلان ہوا اور رحمت صالح کی کوششوں سے باسط عرف میجر اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ سرنڈر ہوا اور ایک مسلح گروہ تشکیل دے کر رحمت صالح کے ہدایات پر بلوچ آزادی کی تحریک کے خلاف سرگرم ہوگئے۔

بلوچ آزادی کی تحریک سے منحرف سرمچاروں اور منشیات کے کاروبار سے وابستہ لوگوں نے پنجگور کے ہر علاقے میں مسلح جتھے قائم کرنا شروع کردئے جس کے بعد ناصرف پنجگور میں بندوق کلچرل کو فروغ ملنا شروع ہوگیا بلکہ قتل اور چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اس کے بعد جتنے بھی پارلیمنٹ پرست پارٹیاں ہیں انہوں نے بھی اپنے اپنے مسلح جھتے تشکیل دے کر انہیں بھی کھلی چھوٹ دی گئی۔ بی این پی عوامی ہو یا جمعیت علما اسلام یا بی این پی مینگل، ہر پارٹی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مسلح جھتے کا سہارا لیا۔

بی این پی مینگل کے ایک مرکزی رہنما نے اپنے سیاسی مخالف کو دوران تقریر دھمکاتے ہو مسلح جھتوں سے وابستہ لوگوں کا نام لے کر کہا کہ وہ آپ کو اپنے علاقے سے ہاتھ پاؤں باند کر اٹھا لیں گے۔ مذکورہ لیڈر کے کارستیانیوں اور ڈیتھ اسکواڈ کی سرپرستی سے پورا پنجگور واقف ہے، بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل بھی اُن کے سامنے بےبس ہیں جس وجہ سے گذشتہ ماہ پنجگور میں بی این پی مینگل کے ایک دیرینہ ساتھی پارٹی کو خیرباد کہہ کر بی این پی عوامی میں شامل ہوگئے۔

مذکورہ لیڈر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گرمکان، تسپ، خدابادان، وشبود اور پنجگور کے دیگر علاقوں میں جتنے بھی مسلح گروہ ہیں انکی سربراہی بی این پی مینگل کا مذکورہ رہنما کر رہا ہے۔ پنجگور کے دیگر علاقوں چتکان، سوردو، بونستان میں سرگرم مسلح جھتے نیشنل پارٹی یا بی این پی عوامی اور جمعیت علما اسلام سے قربت رکھتے ہیں۔

آج پنجگور میں جو کچھ ہورہا ہے یہ سب پارلیمنٹ پرست پارٹیوں اور خاص کر نیشنل پارٹی کی کارستیانیاں ہیں۔ اِن پارٹیوں سے وابستہ رہنماؤں نے اپنے مفادات حاصل کرنے اور بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے اِن لوگوں کے ہاتھ میں بندوق تھما کر یہ کہہ کر کھلی چھوٹ دی کہ جو کرنا ہے کریں آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔

نیشنل پارٹی کے بندوق بردار جھتوں سے پنجگور کا ہر شہری واقف ہے مگر بولنے کی ہمت کوئی نہیں کرتا، ناصرف پنجگور میں بلکہ پورے بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے کارستانیاں لوگوں کے سامنے کھلی کتاب کے مانند واضح ہیں۔

نیشنل پارٹی کے اپنے دور حکومت میں راشد پٹھان سے پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک نے ملاقات کی اور انہیں تربت کے حوالے سے ٹاسک دیا گیا۔ راشد پٹھان کے سارے ضروریات پورے کیئےگئے اور رہنے کے لئے انہیں کہا گیا کہ آپ کچکول علی ایڈوکیٹ کے گھر پر قبضہ کریں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔

گذشتہ ماہ پنجگور کے علاقے خدابادان میں ایک نوجوان کو دن دھاڑے اس کے دکان میں قتل کر دیا جاتا ہے اور نوجوان کے شہادت کے ردعمل میں اہلخانہ کی جانب سے ڈی سی آفس کے سامنے اور بعدازاں سی پیک پر دھرنا دیا جاتا ہے۔ عوامی طاقت سے مجبور ہوکر انتظامیہ مزاکرات کرکے لوگوں کو یقین دھانی کراتا ہیکہ اب پنجگور میں اس طرح کے واقعات وقوع پزیر نہیں ہوں گے لیکن اگلے روز پنجگور میں ایک اور خونریز واقعہ پیش آتا ہے ۔

گذشتہ دنوں پنجگور میں قتل کے دو واقعات رونما ہوئے تو نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدئی کا ایک ٹویٹ آنکھوں کے سامنے سے گزرا تو میں حیران ہوکر رہ گیا اور ذہن میں یہ بات آئی کہ میرے جنازے پر میرا قاتل رو رہا ہے۔ بعد میں عقد کھلا کہ قتل ہونے والے ایک نوجوان کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے۔ پتہ نہیں بلیدئی صاحب ہمیں بےوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں یا خود زیادہ ہی سیانہ بنے ہوئے ہیں۔

پنجگور اور بلوچستان کی مخدوش حالات میں اگر کوئی توقع رکھتا ہیکہ نیشنل پارٹی یا دیگر پارٹیاں بلوچ مسلئے کو حل کریں گے تو یہ اُن کی خام خیالی ہے ۔ جب تک بلوچ قوم غلامی کی اِن زنجیروں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا تب تک بلوچستان کے حالات دگرگوں رہیں گے۔ بلوچستان کے مسئلے کا حل صرف اور صرف آزادی ہے اور بلوچ جہد آزادی کے کارواں سے وابستہ تنظیمیں اور پارٹیاں ہی اس جہد کو منزل مقصود تک پہنچا سکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں