محکوم کے لیے فلسفہ پڑھنا کیوں ضروری ہے؟( پانچواں حصہ)
تحریر: مہر جان
دی بلوچستان پوسٹ
آخر فلسفہ کیا ہے؟ یہاں میرا مراد فلسفہ کی محتاط تعریف یعنی جنس فصل پر مشتمل ہونا نہیں ہے بلکہ عام فہم اور سلیس مذاکرہ ہے کہ ہر انسان سوچنےسمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے،اسی صلاحیت کی بناء پر انسان حیوانات سے ممیز ہے سوچنا،سمجھنا، سمجھ کرعمل کرنا، اور عمل و فکر کو بدل بدل کر نئے زاویے دینا ہی فلسفیانہ صلاحیت ہے، یہی صلاحیت کسی بھی موضوع بحث میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے ، عمومی سطح پر اس صلاحیت اور اس کے مشتملات کو فلسفہ کہا جاتا ہے ، یعنی فکر وعمل کی جدلیات میں فطرت کی کاریگری کو سمجھنا فلسفیانہ بصیرت کی کار یگری ہے، بقول ھیگل انسان کی سوچنے کی صلاحیت فطری ہوتی ہے اسے یہ نہیں بتایا جاتا کہ کیسے سوچا جاۓ؟ اور نہ علمی آموزش سے اس کا حصول ممکن ہے بس اس میں یہ سوچنے کی صلاحیت فطری ہوتا ہے جو اسے تمام جانوروں سے ممتاز کردیتی ہے، بیشتر فلاسفرز کا اس بات پر اتفاق ہے جسکی نشاندہی کانٹ نے کی تھی کہ یہ بہت ہی آسان ہے کہ آپ کی سوچ یا راۓ دوسروں کی دی گئی ڈائریکشن پہ منحصر ہو یا پہلے سے قائم شدہ نظریات و عقائد پہ آنکھیں بند کرکے چلے ، کیونکہ آزاد راۓ یا پہلے سے قائم شدہ نظریات عقائد کو توڑنے کے لیے “جسارت “ نا گزیر ہے، اور راتوں رات کوئی بھی ان نظریات و عقائد سے جان نہیں چھڑا سکتا، بلکہ اس کے لیےاس قربانی کے علاوہ بعدازاں ہمت کے ساتھ ساتھ بے لاگ مطالعہ و خود تنقیدی اور غیر جانبدارانہ مشاہدہ بھی درکار ہے ، تاکہ اپنے فکر و عمل نظر میں رہے، بقول کانٹ فلسفہ کا سب سے بنیادی مقصد ہی اپنے عمل کو ریشنلائز کرنا ہے یعنی آپ کے اپنے عمل کے لیے فلسفیانہ گراؤنڈ کیا ہے؟ آپ اپنے ہر عمل میں کس قدر آزاد ہیں؟ اپنے عمل میں خودمختاری اخلاقیات کی بنیاد ہے ، روسو جسے کانٹ اخلاقیات کی میدان کا نیوٹن کہتے ہیں اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا ہے کہ کیسے انسان آزادانہ کردار نبھا سکتا ہے ، فرانسیسی مفکرین “وجود” کی آزادی کو اولین سمجھتے تھے جبکہ جرمن “وجود و دیگر کے تعلق کے تناظر میں “عملی کردار”خاص کر وجود کی خودمختاریت پہ پورا فلسفیانہ نظام دے چکے ہیں، دونوں مکتبہ فکر کا بنیادی سوال “فلسفہ خود مختاری” اور خودمختاری کی بنیاد پہ “عمل کی دنیا” ہے۔
انسان اسی سوچ و عمل کے ذریعے “فالس کانشیسنیس”سے چھٹکارہ پا سکتا ہے اور عمل کی دنیا میں اپنا کردار ادا کرتا ہے ۔اس امر میں کوئ شک نہیں کہ انسان کہیں نہ کہیں سے فکری سفر شروع کرتا ہے یعنی کہیں نہ کہیں سے کسی بھی فکر و عمل کا حصہ بن جاتا ہے ، انسان کے پس منظر میں ،مذہب ، معاشرہ ، کوئ بھی نظریہ یا کم از کم کامن سینس کار فرما ہوتی ہے ، اب انسان مکالمہ کی صورت میں ،مطالعہ کی صورت میں اپنے عمل کو نہ صرف بنیادیں فراہم کرتا رہتا ہے ، بلکہ وہ تمام بت (فالس کانشیسنیس ) جو اس نے پالے ہوۓ ہیں اسے بھی توڑتا رہتا ہے ، اب اس کا تعلق کسی بھی نظریہ و شخصیت سے عقیدت سے بڑھ کر تعقل کی بنیاد پہ ہوتا ہے وہ اب اپنی زندگی کو اک فلسفیانہ منہاج عطاء کرتا ہے اور اپنے عمل سے اپنی سوچ کو کامن سینس و جذبات سے اک دو قدم آگے لے کر جاکر ریشنلاہز کرتا ہے ، پہلی سطح یعنی عمومی سطح کامن سینس و جذبات کی ہوتی ہے (یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ جذبات بہت مقدس ہوتے ہیں انکی مکمل نفی نہیں ہورہی )کامن سینس کی سطح پہ ہم واقعات و حالات کو ان کے پس منظر سے ہٹ کر دیکھتے ہیں جو نظر آرہا ہوتا ہے اسی کو حقیقی مان کر زندگی گذار رہے ہوتے ہیں اسے ھیگلینڈاکٹرائن میں “بی اینگ” کہا جاتا ہے دوسری سطح سمجھنے کی ہوتی ہے واقعات و حالات کو جوڑ کر (جدلیاتی ) سمجھنا ، مظہر کی بجاۓ جوہر تک پہنچنے کی سعی کرنا ، اسے “سائنسی سطح” کہا جاتا ہے ھیگلئین ڈاکٹراہن میں اسے “بی اینگ” میں “نتھنگ” کا نمودار ہونے کو “نتھنگ “یعنی “تضاد “ کا مرحلہ کہا جاتا ہے تیسری سطح فلسفیانہ تدبر کی ہوتی ہے جہاں ریزن کارگر ہو کر حالات واقعات کو (بی اینگ و نتھنگ ) ملا کر “بی کمنک” (تکوین) کلیت میں دیکھتی ہے اور اس کے سامنے صرف “لازمیت” (Necessity) ، “مقصدیت” (Teleology)اور “کائناتی” (University) سامنے ہوتی ہے ، اس سطح کو ھیگلئین ڈاکٹراہن میں “تعقل” (Notion)کہتے ہیں ھیگلین ڈاکٹراہن خود باباۓ جدلیات پارمینیڈیز کا (“بی اینگ “ و “نتھنگ”)ہیراقلیطس کی “بی کمنک” و افلاطون و ارسطو ، سپاہنوزا کے فلسفیانہ تصورات سے ہو کر کانٹ تک پہنچ کر ایک پورا فلسفیانہ نظام بن جاتا ہے جہاں سے مارکس آگے کا سفر طے کرتا ہے ، اب محکوم کامن سینس و جذبات سے بڑھ اپنے ہر عمل کو تعقل کی بنیاد فراہم کرتا ہے اب اس کا سفر طویل ہو کر بھی انتھک ہوتا اور لذت سحر سے بھر ہور ہوتا ہے بقول مارکس “علم کے لیے کوئ شارع خاص نہیں اور صرف وہی اس کے اوج کمال تک پہنچ پاتے ہیں جو اس کی تھکا دینے والی کھٹن راہوں سے گبھرا نہیں جاتے۔”
فلسفہ کو سر سری تصورات کی حد تک تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے پارمینیڈیز کا “فلسفہ سکون”ہیراقلیطس کا “فلسفہ حرکت “ اسی طرح افلاطون کا “نظریہ اعیان” یا ارسطو کا افلاطون سے اختلافات کو ، جرمن آئیڈل ازم سے لے کر جدلیاتی مادیت اور موجودہ لسانیات کے حوالے سےموشگافیوں کو اپنے فکر و عمل میں مربوط نہیں کرسکتا ، اور اپنے اردگرد تنقیدی نقطہ نگاہ سے اپنے فکر و عمل کو نیا زاویہ نہیں دے سکتا ۔ ان کے سامنے ایک لکیر کھینچی جاتی ہے جس پہ وہ چلتا رہتا ہے وہ جذباتی تحریر ، یا فقط جذباتی تقاریر سے جی بہلاتا ہے ، اس کا ذہن مواد سے بڑھ کر صرف شخصیت و مصنوعی طرز تخاطب پہ مرکوز ہوتا ہے ، کہ فلاں کی تقریر یا تحریر اچھی ہے جب مواد پہ بات کی جاۓ تو وہی بار بار دہرائ گئ پرانی باتیں ، وہ غیر محسوس طور پہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے ،اور عقلی تعلق کی بجاۓ پھر اس کا رشتہ کسی بھی نظریہ و شخصیت سے عقیدت کی بنیاد پہ بنتا رہتا ہے ، اور یہ عقیدت کسی بھی تحریک , خاص محکوم کے لیے زہر قاتل ہوتی ہے ، یہاں تو بڑی بڑی علمی و عملی شخصیات مثلاً مارکس ، لینن کے ساتھ بھی تعلق عقیدہ کے بنیاد پہ بنایا گیا ہے ، بجاۓ مارکس کے علمی کردار پہ بحث و مباحثہ و مکالمہ کیا جاۓ بس ان سے عقیدت بنائ جاتی ہے ، پھر چل سو چل ! ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مارکس کی سماجی “سائنسی نقطہ نظر” پہ “فلسفیانہ نقطہ نظر” یعنی تنقیدی پہلو سامنے لایا جاۓ ، لیکن یہاں چند مارکسسی اصطلاحات ، چند مارکسسی اقوال ہی کُل سرمایہ حیات بن چکی ہیں ، جبکہ پوری فرینکفرٹ اسکول آف تھاٹ کی عمارت مارکس پہ تنقید کی صورت میں کھڑی ہے ،یہاں تنقید کو گالی سمجھا جاتا ہے ، رشتے ناطے توڑ دئیے جاتے ہیں ، علمی سطحیت کو اجاگر کرکے پیری و مریدی و عقیدت کے بل بوتے پر ادیب ، دانشور ، مقام پاتے ہیں ، سیاسی طور پہ مکالمہ ، سوالات ، تنقید کا رستہ ہر سطح پہ روک دیا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے نامی گرامی پروفیسرز کے پاس ایک ایسا ریسرچ پیپر بھی نہیں ہوتا جو وہ حقیقی علمی “لوکل میدان” میں لاسکے ، چہ چاہیکہ وہ بین الاقوامی اسکالرز سے مکالمہ مباحثہ کرے ، دانشوروں کے پاس لفاظی و وقت پاسی (Killing time) کے علاوہ کچھ نہیں ، دانشوری پارٹ ٹاہم جاب بن چکی ہے ، جبکہ فلسفہ سوچنا ، سمجھنا ، سمجھ کر عمل کرنا ، اپنے عمل پہ خود تنقیدی شعور کا ہونا ، مکالمہ اور سوالات کرکے نئے زاویے مرتب کرنے کا نام ہے ۔ فلسفیانہ و تنقیدی ذہن ہی تضادات کو اجاگر کرتا ہے ، ان تضادات کی وجہ آگے کا سفر صیح سمت متعین ہوکر منازل طے کرتا ہے ۔ جبکہ یہاں بیشتر جھگڑا ہی ناموری کا ہے ، فلاسفر اس ناموری سے بے غرض ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک دوست محترم ارشد نذیر نے بہت خوب لکھا ہے کہ “فلسفہ ہی ایسا علم ہے جو پہلے خود سے عشق کے مراحل طے کرواتا ہے، دوسرے مرحلے پر خود کو اپنے عاشق یعنی قاری پر عیاں کرتا ہے، پھر خود کو ہضم کروانے کی تربیت فراہم کرتا ہے اور آخر میں اپنا اظہار تلاش کرکے دوبارہ منظرِ عام پر آجاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فن ہی یہی ہے کہ اسلوب خود بخود فلسفی کی تربیت اور اظہار کے پیچھے کارفرما ریاضت کا پتا دیتا ہے۔ اس کے لئے اُسے خود بولنا نہیں پڑتا۔ میں نے آج تک کوئی ایسا حقیقی فلسفی نہیں دیکھا جس نے مطالعہ بہت کم کیا ہو یا کسی چور دروازے سے کوئی حقیقی فلسفہ متعارف کرا سکا ہو۔ کانٹ، ہیگل یا مارکس میں سے کسی کا بھی نام لے لیں ان میں سے آپ کو ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے مطالعہ بہت کم کیا ہو۔ ان سب نے اپنی پوری پوری زندگیاں علم کے عشق میں غرق کی ہیں بلکہ اپنی نجی، سماجی اور سیاسی زندگی میں اپنے علم کی وجہ سے بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ہے، نفرتیں جھیلی ہیں۔ طعنے برداشت کئے ہیں۔ حقیقی فلسفی میں فلسفہ خود ہی یہ شعور بیدار کردیتا ہے کہ سماج اُن کی کاوشوں کا بدلہ نہیں دے سکتا۔ اس لئے وہ تو اپنی ریاضت اور محنت کے اظہار سے بے پرواہ ہوکر اپنے اس عشق میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں، انہیں نہ کسی صلے کی تمنا ہوتی ہے اور نہ ہی کسی ستائش کی خواہش۔ بس تحقیق اور سماج کو نئی سوچ دینا ہی ان کا مطمع نظر ہوتا ہے۔ ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب وہ اپنے علم کے زور پر منوا لئے جاتے ہیں۔ ایسے میں انہیں یہ بتا کر خود کو چھوٹا کرنے کی ضرور نہیں ہوتی کہ انہوں نے اس علم کے لئے کتنی عرق ریزی کی ہے” بلوچ قوم میں بابا مری اس کی مثال ہے نہ کسی صلے کی تمنا ء ، نہ کسی ستائش کی خواہش بس اپنے عشق کی دنیا میں خاموشی سے بڑھتے جانا بڑھتے جانا ، بقول نزار قبانی “جو خاموشی پہ کمال کا ہنر رکھتا ہے” جو خاموشی کے راز و نیاز سے واقف ہے ، جو موجوں کی طرح گردن اٹھا اٹھا کر شور نہیں مچاتا بس خاموشی سے بحر حقیقت میں رواں دواں ہے ۔۔۔
این موجها که گردن دعوی کشیدهاند
بحر حقیقت اند اگر سر فرو کنند
بيدل
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں