ماں! تجھے سلام
تحریر:عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ
شاری بلوچ عرف برمش نے کراچی یونیورسٹی میں ایک وین پر فدائی حملہ کرکے بلوچ تحریک کو ایک اہم موڑ پر کھڑا کردیا۔ ایک نئے باب کی سنگ بنیاد ڈال دی۔ بلوچ سیاست میں ایک نیا رجحان پیدا کردیا۔ اس واقعہ سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ قومی جبر کی تیزی کی وجہ سے بلوچ تحریک بھی تیزی کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزررہی ہے۔ اس ارتقائی عمل نے عورت کو پرامن جدوجہد سے نکال کر مزاحمتی جدوجہد کی طرف دھکیل دیا۔ جس کی وجہ سے بلوچ مسلح جدوجہد میں ایک نیا پہلواور جدت آگئی۔ فدائی حملے نے بلوچ آبادی کی پچاس فیصد آبادی پرمشتمل خواتین اوربچیوں کو اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ ملکر ہتھیاراٹھانے کا راستہ دکھایا۔ اب ہر خاتون کو یہ باور ہوگیا ہے کہ وه مردوں سے کمتر نہیں ہیں۔ شاری بلوچ نے بلوچ خواتین کی سوچ و فکر کو سیاسی پختگی دی۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی سابق چیرپرسن شہید بانک کریمہ بلوچ نے بلوچ خواتین کو گھروں سے نکال کر پرامن سیاسی جدوجہد کی طرف راغب کیا تھا۔ جس کی وجہ آج بے شمار بلوچ لڑکیاں سیاست کی میدان میں سرگرم ہیں۔ شاری بلوچ نے بلوچ خواتین کو پرامن جدوجہد سے مزاحمتی جدوجہد کی طرف راغب کیا۔ انہوں نے بلوچ خواتین کو یہ پیغام دیا کہ پرامن جدوجہد سے بلوچ قوم کو کبھی بھی حقوق یا آزادی نہیں ملے گی۔ مسلح جدوجہد واحد انقلاب یا آزادی کا راستہ ہے۔ ان کے اس عمل نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ حکمران ہتھیار کی زبان سمجھتے ہیں۔ اور اسی میں بلوچ کاز کی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔
شاری بلوچ عرف برمش نے جامعہ کراچی میں ایک وین پر فدائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں تین چینی باشندوں سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ واقعہ 26 اپریل، 2022 کو پیش آیا۔ ہلاک ہونے والوں میں چینی کنفوشیس زبان سکھانے والے ادارے کے ڈائریکٹر بھی شامل تھا۔ دھماکہ جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ہوا۔ جس کے نتیجے میں تین چینی آفیشلز ہوانگ گواپنگ، دنگ موفانگ اور چن سائی ہلاک ہوئے۔ حملے میں وین کا ڈرائیور خالد ہلاک جبکہ حفاظت پر معمور دو سیکورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
بلوچ لبریشن آرمی اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ کے مطابق کراچی میں بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے ایک کامیاب فدائی مشن میں چینی آفیشلز کو نشانہ بنایا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ تیس سالہ فدائی شہید شاری بلوچ زمانہ طالب علمی سے ہی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے بلوچ قوم پرست سیاست کا حصہ تھیں انہوں نے دو سال قبل مجید بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی اور فدائی حملے کے لئے رضاکارانہ طور پر اپنا نام دیا۔
بلوچ معاشرے میں بلوچ خواتین میں فدائین کا پیدا ہونا ریاستی اداروں کے لئے سوچنے کا مقام ہے۔ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل فوجی آپریشن میں نہیں بلکہ اس سے بلوچ مزاحمتی تحریک میں مزید شدت آئیگی۔ جیسے جیسے ریاستی جبر میں اضافہ ہوگا۔ ویسے ویسے بلوچ مزاحمت کاروں کا دائره کار وسیع ہوتا جائیگا۔ مردوں کے ساتھ اب خواتین نے بھی ہتھیاراٹھانا شروع کردیا۔
شاری بلوچ کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ کیونکہ ایک پڑھی لکھی خاتون کی فدائیان میں شمولیت نے ثابت کیا کہ بلوچ سماج میں جاری فوجی آپریشن کے خلاف کس حد تک غم و غصہ پایا جاتا ہے۔وه اپنے غم و غصہ کا اظہار کس نہج پر جاکر کرتے ہیں۔ اپنی جان کی پرواه کئے بغیر فدائی حملے کرتے ہیں۔ فدائی حملوں کا یہ عمل حکومت سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک پیغام ہے اور انہیں اس فالٹ لائن کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔
شاری بلوچ عرف برمش کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے کلاتک سے تھا۔ شاری بلوچ نے 2014 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ کی تعلیم مکمل کی جبکہ 2015
میں بلوچستان یونیورسٹی سے زولوجی میں ایم ایس سی کر رکھی تھی۔ وه ایم فل میں داخلہ لینے کی تیاری کررہی تھی۔ شاری بلوچ کیچ ہی میں شعبہ تعلیم سے بھی وابستہ تھیں اور گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول کلاتک میں ٹیچر تھی۔ ان کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان بشیر ایک ڈینٹسٹ ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کی جانب سے شاری بلوچ عرف برمش کی آخری ویڈیو پیغام جاری کیا گیا تھا۔ آٹھ منٹوں پہ مشتمل ویڈیو پیغام کے آغاز میں بی ایل اے مجید بریگیڈ کے مبینہ کمانڈر کو بھی دیکھا گیا۔ جس میں وه چینی صدر کو مخاطب کرکے کہتے کہ ”وه بلوچستان سے نکل جائے بصورت دیگر بلوچ قوم کے سینکڑوں کی تعداد میں مرد و خواتین مزاحمت کیلئے تیار ہیں۔“
ویڈیو میں شاری بلوچ کا کہنا تھا خواتین سیاست، احتجاج، تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، وه سڑکوں پر بیٹھ کر اپنے لاپتہ افراد کیلئے احتجاج کرسکتی ہیں پھر خواتین جنگ کیوں نہیں لڑ سکتی ہیں؟ شاری بلوچ کے شوہر کا سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہنا تھا کہ انہیں اپنی اہلیہ کی قربانی پہ فخر ہے۔ انہوں نے اپنے دو بچوں اور اہلیہ کے ہمراه ایک تصویر شائع کرتے ہوئے لکھا انکے بچے قابل فخر انسان کی صورت میں بڑے ہونگے کہ انکی والده ایک عظیم انسان تھی۔ شاری بلوچ کے والد حیات بلوچ ضلع کیچ میں ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ره چکے ہیں۔
حیات بلوچ سے میری پہلی ملاقات 2001 میں اس وقت کے کمشنر مکران ارشاد حسین کے کمرے میں ہوئی۔ یہ پرویز مشرف کے دور حکومت کی بات ہے۔ اس وقت میں ڈیلی ڈان کراچی سے منسلک تھا۔ ڈان نے مجھے مکران ڈویژن کے تینوں اضلاع یعنی کیچ، پنجگوراور گوادر میں رپورٹنگ کرنے کے لئے تعنیات کیا تھا۔ حیات بلوچ مجھے مکران کے زیرالتوا ترقیاتی منصوبوں سے متعلق آگاہی دیتے تھے۔ اور میں ان زیر التوا منصوبوں کو پاکستان کے انگریزی کے سب سے بڑے اخبار ڈان میں اجاگر کرتا رہتا تھا۔ ڈان واحد اخبار ہے جس کو حکمران طبقہ پڑھتا ہے۔ اور ان کی خبروں کا نوٹس بھی لیا جاتا ہے۔ حیات بلوچ کے دفتر میں موجوده میرانی ڈیم کے منصوبے سے متعلق پی سی ون کی کاپی میرے ہاتھ لگ گئی۔ یہ پی سی ون محکمہ واپڈا نے تیار کیا تھا۔ جس میں میرانی ڈیم کی اہمیت و افادیت سے متعلق بے شمار معلومات تھیں۔ یہ وه زمانہ تھا جب میرانی ڈیم کا منصوبہ 1977 سے زیرالتوا تھا۔ ہر دور کی حکومت اس اہم منصوبے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتی تھی۔ مجھے میرانی ڈیم کے موجوده ایریا کا دوره کرنا تھا۔ اس کے لئے میں نے بجار بلوچ کی مدد حاصل کی۔ بجار بلوچ کا تعلق ضلع کیچ سے ہے۔ آج کل وه گوادر میں بینکنگ سیکٹر سے وابستہ ہیں۔ دوره کرنے کے بعد میرانی ڈیم پر کام شروع نہ کرنے پر میں ڈان میں مسلسل لکھتا رہا۔ اسی دوران جنرل پرویز مشرف سے میری ملاقات مکران کوسٹل ہائی وے کے منصوبے پسنی ٹو گوادر سیکشن کی ایک تقریب میں ہوئی۔ جب مجھے پرویز مشرف سے تعارف کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے بتایا کہ وه مکران ڈویژن کے مسائل سمیت میرانی ڈیم کے منصوبے کے بارے میں ڈان اخبار کی رپورٹنگ کو غور سے پڑھتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میرانی ڈیم کے منصوبے کی منظوری دی ہے۔ اور اس پر جلد کام کا آغاز بھی ہوگا۔
یہ سب کہانی بیان کرنے کا مقصد ہے کہ مجھے حیات بلوچ کی معاونت حاصل نہیں ہوتی تو میرانی ڈیم کا منصوبہ کبھی بھی مکمل نہیں ہوتا۔اسی طرح حیات بلوچ نے موجوده تربت پریس کلب کی بلڈنگ کی تعمیر میں ہماری بے حد رہنمائی کی۔ ان کے صلاح و مشورے سے تربت کے نامور صحافی پھلان خان اور لال بخش قومی اور میں نے آرمی مانیٹرنگ ٹیم مکران کے انچارج بریگیڈیئر سعید احمد اور تربت کے انچارج کرنل طاہر اخلاص سے ملاقات کی۔ پریس کلب کی عمارت کی تعمیر میں پانچ لاکھ روپے درکار تھے۔ بریگیڈیئر سعید احمد پریس کلب کے منصوبے کے حق میں تھے۔ تاہم کرنل طاہر اخلاص ہماری رپورٹنگ سے نالاں تھے۔ یہ وه دور تھا جب گوادر میں جاری لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہره کرنے والے مظاہرین کے ایک ہجوم نے گوادر پاور ہاؤس کو آگ لگادی تھی۔ جس کی خبر ڈیلی ڈان کے پرنٹ پیج پر شائع ہوئی۔ اس خبر نے اسلام آباد کی سرکار کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ واضح رہے کہ جلائے جانے والے جنریٹرز عمان کے سلطان قابوس نے گوادر کے عوام کو تحفے میں دیئے تھے۔ یہ جنریٹرز گوادر کے بلوچ پاڑه سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی رہنما بخشی بلوچ مرحوم عمان کے سلطان قابوس سے لیکر آئے تھے۔ ان جنریٹرز کی صحیح دیکھ بال نہ ہونے کی وجہ سے جنریٹرز ناکاره ہوگئے تھے۔ جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ پندره گھنٹےتک چلاگیا تھا۔
بہرحال ہماری بے حد اصرار پر بریگیڈیئرسعید احمد نے پریس کلب کی تعمیر کی منظوری دے دی۔
شاری بلوچ عرف برمش کے آبائی علاقے کلاتک سے پندره کلومیٹر فاصلے پر ڈنک واقع ہے۔ ڈنگ بھی کلاتک کی طرح ایک چھوٹا قصبہ ہے۔ شاری بلوچ ڈنک میں شہادت حاصل کرنے والی بلوچ خاتون ملک ناز کی مزاحمت سے متاثر تھی۔ وه ان کو اپنی ماں تصور کرتی تھی۔ اس لئے شاری بلوچ نے شہید ملک ناز کی کمسن بیٹی برمش کا لقب لیا۔ ملک ناز کی شہادت سرکاری سرپرستی میں چلنے والے مسلح جھتوں سے لڑائی کے دوران ہوئی۔ بلوچ تحریک کو کمزور کرنے کے لئے سرکار نے پرائیوٹ ملیشیا تشکیل دیئے تھے۔ کریمنلز کے ہاتھوں میں اسلحہ تھما دیا گیا۔ ان کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ وه عزت داروں کے گھروں میں گھستے تھے۔ ڈکیتیاں کر تے تھے۔ لوگ خوف و ڈر کے مارے خاموش رہتے تھے۔ تربت کے علاقے ڈنک میں جب مسلح افراد ملک ناز کے گھر میں ڈکیتی کی نیت میں داخل ہوئے تو ملک ناز نے مسلح افراد کا مقابلہ کیا۔ زخمی حالت میں بھی وه ایک ملزم کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ اور اس کو عوام کے حوالے کردیا تھا۔ جبکہ وه خود زخموں کا تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئی۔
ملک ناز کی کمسن بیٹی برمش بھی مسلح افراد کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوگئیں تھیں۔ یہ وه دور تھا جب پورے مکران میں سرکاری سرپرستی میں مسلح جھتے دندناتے پھر رہے تھے۔ سیاسی ورکرز کو انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بناتے تھے۔ لیکن ملک ناز نے مکران کے عوام کو یہ باور کروادیا کہ عوام کی طاقت سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہے۔ اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک ناز کی شہادت نے بلوچ خواتین کو کافی متاثر کیا۔ ان کی شہادت نے بلوچ خواتین کو یہ پیغام دیا کہ عورت مرد سے کم تر نہیں ہے۔ بلکہ عورت مرد سے زیاده طاقت ور ہے۔ شاری بلوچ عرف برمش ملک ناز کی مزاحمت اور شہادت سے بے حد متاثر تھی۔ انہوں نے ملک ناز کی بیٹی برمش کے نام کا لقب چنا اور ملک ناز کی طرح مزاحمت پسند بنی۔ شاری بلوچ کا نظریہ ہے کہ مزاحمتی جدوجہد کے بغیر بلوچ تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی ہے۔ مزاحمت ہی انقلاب کا واحد راستہ ہے۔ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔
شاری بلوچ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ وه جس کے خلاف لڑرہی ہے۔ وه دنیا کے دو سپر طاقت ممالک ہیں۔ ان سے پوری دنیا ڈرتی ہے۔ ان کے پاس وه مہلک ہتھیار (ایٹم بم) ہیں ۔جو دنیا کو سیکنڈوں میں نیست و نابود کرسکتے ہیں۔ لیکن وه یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے خون کے چند قطرے دنیا کے 195 ممالک میں چھپنے والے اخبارات، نشر ہونے والے ٹی وی چینلز، ریڈیو اور سوشل میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ فدائی حملہ عالمی میڈیا کی ہیڈلائینز اور لیڈ اسٹوری بن گیا۔ دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس فدائی حملے میں جہاں ایک عورت کی موت ہوئی وہاں اس کی شہادت کی وجوہات سے بھی دنیا آگاه ہوگئی۔ دنیا کو یہ آگاہی حاصل ہوئی کہ بلوچستان بھی دنیا میں ایک سرزمین ہے۔ جہاں بلوچ قوم کی ثقافت، زبان اور معاش کو خطره لاحق ہے۔
یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آدم ذات یا حیوان کی نسل سے تعلق رکھنے والی ماں دنیا میں سب سے زیاده امن پسند ہوتی ہیں۔ وه جنگ سے نفرت کرتی ہیں۔ کیونکہ جنگ سے ان کی اولادوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ اس لئے مائیں اپنی اولادوں کی خاطر امن کو ترجیح دیتی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اولاد کی جان کو خطره لاحق ہو تو ماں اپنی اولاد کی جان بچانے کے لئے اپنی جان قربان کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاتی ہے۔ شاری بلوچ بھی ایک ماں تھیں۔ ان کے نزدیک وه صرف دو بچوں کی ماں نہیں تھیں۔ بلکہ پوری بلوچ قوم کی نئی نسل کی ماں تھیں۔ جن کی قومی تشخص خطرے میں ہے۔ انہوں نے پوری بلوچ قوم کی بقا و سلامتی کے لئے یہ قدم اٹھایاتاکہ آنے والی بلوچ قوم کی نئی نسل بچ سکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں