پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم کراچی اور بلوچستان کے لوگوں کی طرح گمشدگی کے خلاف ہیں۔
کراچی میں اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ ہمارا موقف رہا ہے کہ تشدد اور گمشدگی آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر یہاں آئے ہیں، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے، ایم کیو ایم اور ہمارے درمیان لاپتا افراد کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات پر اتفاق ہوا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ لاپتا افراد کے اہل خانہ نے اپنے دکھ کا اظہار کیا اور احتجاج بھی ریکارڈ کرایا، ہم ایم کیو ایم قیادت کے شکر گزار ہیں کہ ہماری ملاقات کرائی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں لاپتا افراد کے لواحقین نے کئی روز سے دھرنا دیا ہوا تھا، حکومت کی یقین دہانی پر لواحقین نے دھرنا ختم کیا۔
رانا ثناء اللّٰہ نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ ان چیزوں میں ملوث ہیں وہ آئین کی خلاف ورزی کررہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت ہم پر اپنا اعتماد رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ تصادم کے راستے کے بجائے افہام و تفہیم سے اس مسئلے کو آگے بڑھا رہے ہیں، سزا اُتنی ہی دی جائے جتنا جرم ہو، لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔
لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی بلوچ نے رانا ثنا اللہ کے ٹوئٹ کع کوٹ کرتے ہوئے کہا کہ آپکا شکریہ کہ آپ لاپتہ افراد کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں جیسا کہ آپ نے کوئٹہ میں ہم لواحقین کو دھرنا ختم کرنے کی شرط پر بازیابی کی یقین دہانی کرائیں تھی مگر ساتھ میں آپکو یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اس وقت آپ وزیر داخلہ ہیں اور حکومت آپکی اور ریاست کو حکومت چلاتی ہے۔
رانا ثنا اللہ کی اسی ٹویٹ کو انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل ایمان مزاری نے بھی کوٹ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے لئے یہ باعث شرمندگی ہے کہ لوگوں کو قانون کے دائرے میں لانے کے بجائے انہیں لاپتہ کردیا جائے اور پھر ان کی لاشیں ملیں۔ حکومتوں کی اس بارے میں رٹ کس حد تک ہے اس کا سب کو علم ہے، یقین دلاتا ہوں کہ ہم تصادم کے بجائے افہام کے ساتھ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔