لاپتہ افراد کا سنگین مسئلہ اور بابُوؤں کی بذلہ سنجی
تحریر: سلیم بلوچ
دی بلوچستان پوٹ
لاپتہ افراد کے لواحقین زیارت میں مسنگ پرسنز کو مسلح تنظیم سے جوڑ کر جعلی مقابلے میں قتل کرنے کے خلاف کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کے سامنے ریڈ زون میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے، اُن کا مطالبہ تھا کہ اس واقعہ کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کے لئے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا جائے اور زیر حراست بے گناہ افراد کو قتل کرنے میں ملوث افراد کو سزا دی جائے۔ اس دوران دھرنا شرکاء اور لواحقین سے بلوچستان حکومت اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام مذاکرات کرتے رہے اور انہیں مختلف یقین دہانیاں کراتے رہے لیکن لواحقین بلوچستان حکومت کے یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں ہوئے اور دھرنے کو ختم کرنے سے انکار کیا۔ پھر بلوچستان حکومت کی سفارش پر ہائیکورٹ نے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دی یہاں آکر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نمائندوں اور لواحقین کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور اس ردعمل میں چیئرمین وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نصر اللہ بلوچ نے اپنے عہدے سے استعفی دینے کا اعلان کیا اور عملی طور پر وہ اور ماما قدیر دھرنے سے الگ ہوگئے اور ماما قدیر دھرنے کو چھوڑ کر کیمپ میں جاکر بیٹھ گیا یہ کیمپ گزشتہ 10 سال سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم ہے۔
جب ہم نے اختلافات کی وجوہات جانے کی کوشش کی تو ہمارے سامنے اختلافات کی اہم وجہ یہ سامنے آئی کہ کچھ لوگ جو لواحقین اور وی بی ایم پی کو یرغمال بناکر اپنی مرضی کے فیصلے کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے اس مقصد کے لئے اول لواحقین اور وی بی ایم پی کے درمیان مختلف طریقوں سے غلط فہمیاں پیدا کئے، ایک طرف یہ لوگ یہ موقف اپناتے تھے کہ لواحقین کے بغیر کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ وی بی ایم پی کا عہدیدار بننے یا دھرنے کے فیصلوں پر اثر انداز ہو لیکن اندرون خانہ بیک وقت وہ یہ دونوں چیزیں کرکے اپنے موقف کی نفی کررہے تھے۔
ایک سابق سینیٹر جو کچھ عرصے سے مسنگ پرسنز کے حوالے سے نہایت سرگرم ہے، مختلف ذرائع سے بات چیت کرکے میں نے بذات خود یہ نتیجہ اخذ کیا کہ موصوف سیاسی طور پر مکمل تنہائی کا شکار ہے اور اُن کا یہ سیاسی غیر سنجیدگی کا اظہار ہے کہ وہ کسی جماعت میں بھی ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن کے درمیان تک نہیں ٹکتے اگر ان کا گزشتہ 20 برسوں کی سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو 2008 کے الیکشن سے قبل پی پی پی میں شامل ہوئے اور قوم پرستوں کی بائیکاٹ سے ان کی لاٹری نکل آئی اور ان کے بھائی وزیر اعلیٰ بن گئے۔
بلوچستان میں یہ دور انتہائی بد انتظامی اور کرپشن کا دور ثابت ہوا اور اس دور میں سیاسی کارکنوں کی اغواء نما گرفتاریوں پھر تشدد زدہ لاشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس بدترین دور میں بلوچستان بھر میں ڈیتھ اسکواڈ بنائے گئے اور سب سے منظم ڈیتھ اسکواڈ کا موصوف کے گھر میں ہی مولود ہوا اور اُن کے بھائی اس کے خالق تھے۔ شہید غلام، محمد، لالہ منیر، شیر محمد سمیت سینکڑوں کارکنوں کی مسخ لاشیں برآمد ہوئے، کوئٹہ، مستونگ، قلات، خضدار سمیت دیگر علاقوں میں قوم پرست و آزادی پسند کارکنوں، پروفیسرز، وکلاء، ادیب و ڈاکٹرز کو نشانہ بنایا گیا اور نفاذ امن کے نام سے زمہ داریاں بھی قبول کی گئی، ہزارہ برداری پر اس دور میں آگ برسائی گئی، ان کا قتل عام کیا گیا اور احتجاج کرنے والوں پر طعنہ بازی کی گئی کہ ان کے لئے ٹشو پیپر کا لوڈ بھیج رہے ہیں اس کے بعد اس بدترین دور حکومت کا خاتمہ گورنر راج کے صورت میں ہوئی۔
خانہ بدوشوں کا یہ قافلہ 2013 کے الیکشن سے قبل پی پی پی سے اڑان بھر کر مسلم لیگ میں وقتی طور پر پناہ گزین ہوگئے، جوں ہی مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوئی موصوف وفاق پرستی سے قوم پرستی کی جانب عازِم سفر ہوگئے اور 2018 کے الیکشن سے قبل بی این پی میں شامل ہوئے، پھر انتخابات میں شکست سے دو چار ہونے کے بعد سیاسی طور پر گوشہ نشین ہوگئے، ہر طرف سے سیاسی طور پر تاریکی دیکھ کر پھر 2021 میں اچانک مسنگ پرسنز کی مظاہروں میں جَلَوہ افروز ہوگئے، پھر ایک ماسٹر بابُو اور ایک وکیل بابُو بھی لشکری کا حصہ بن گئے پھر انہوں نے موصوف کو کتاب میلے و ادبی سیمیناروں میں ایک مبلغ ایک مفکر کے طور پر پیش کرنے لگے۔
وکیل بابُو اور ماسٹر بابُو انتہائی مہارت سے ریڈ زون دھرنے پر براجمان ہوگئے اور سابق سینیٹر موصوف نے کچھ سرمایہ کاری کی، اس طرح ریڈ زون دھرنے میں سیمینارز ہونے لگے اور سرمایہ کاری کے بدلے موصوف صدارتی سیٹ پر بیٹھ گئے، کسی نے ایک دو ٹیوٹ کرکے تو کسی نے ایک آدھ کیس لڑ کر لاپتہ افراد کے والئی وارث بن گئے۔
2023 کے انتخابات کے لئے موصوف صف بندی کررہے ہیں ایک بھائی تو قابل از انتخابات جمعیت علمائے اسلام کی جانب پرواز کرچکے ہیں، موصوف شش و پنج کا شکار ہے، قوم پرستی سے پھر وفاق پرستی کی جانب بھی قدم آگے، پیچھے کررہے، شہباز شریف سے ملاقات کرچکے ہیں اور جمعیت میں بھی سیاسی پناہ ڈھونڈ رہے ہیں، مولانا فضل الرحمان سے بھی مل چکے ہیں لیکن دونوں سیانے بابُوؤں نے انہیں یہ مشورہ دیا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اٹھائیں، الیکشن میں جائیں، پارلیمنٹ کے دروازے تمہارے لئے کھل جائیں گے کیونکہ اس سلوگن کو کاؤنٹر کرنے کے لئے حبیب نالے کے پار سے کوئی پیغام ضرور آئے گا پھر لاپتہ افراد کا مسئلہ وہاں ٹیبل پر چھوڑ دیں اگر پیغام نہیں آیا بھی پھر لاپتہ افراد کے بے بس، مجبور ماؤں و بہنوں کی آنسوؤں کو سیڑھی بناکر آپ اسمبلی میں پہنچ ہی جاؤ گے۔
جہاں ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی اپنے والد کے حوالے سے ریاست سے سوال کرتی ہے ایک سوال موصوف سے کرتے جب دین محمد، زاکر مجید سمیت دیگر نوجوان لاپتہ کردئیے گئے، اُس دور میں موصوف حکومتی پارٹی کے صوبائی صدر، بھائی وزیر اعلیٰ اور دوسرے بھائی ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ تھا اگر تقریر جھاڑنے کے بجائے موصوف دامن جھاڑتے اگر وہ نہیں جھاڑ سکتے وکیل بابُو اور ماسٹر بابُو موصوف کے کپڑے چُپکے سے جھاڑتے شاید ایک آدھ ماؤں کے لخت جگر برآمد ہوتے۔
یہاں یہ بات بھی انتہائی قابل غور ہے کہ یہ دونوں بابُو ظاہری طور پر ہے تو قوم پرست لیکن ان کی سوچ زیادہ قوم پرست مخالف ہے۔ ان کی پسندیدہ شحصیت سینیٹر موصوف ہے جو براہوئی و بلوچ تضاد کے خالق ہیں، ایک زمانے میں ایسے قابل نفرت مواد اور لٹریچر پبلیش کرنے میں پیش پیش تھے، ایران سے قریبی رابطے بھی رکھتے ہیں، دوسرا ان کا پسندیدہ شخص گوادری مُلا ہے، جس کے لئے ماسٹر بابو نے دو گز لمبی داستان لکھ کر انہیں تو بلوچ نجات دہندہ بناکر پیش کیا تھا پھر وہ مُلا منصورہ سے برآمد ہوئے، اب وہ کھل کر البدر و الشمس کے رنگ میں رنگ گئے ہیں اور تیسرا ان کا موسی جو فرعون سے بلوچوں کو نجات دلائیں گے وہ بھی ایک مذہبی جماعت کی سینیٹر ہے، موصوف کے حبیب نالے کے پار بھی مضبوط رابطے استوار ہے، کیا یہ بلوچستان میں افغانستان یا ایران طرز کی انقلاب لانا چاہتے ہیں؟
اب ہم دوبارہ اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ کس طرح ریڈ زون دھرنے کا ڈراپ سین ہوا 50 دنوں کی دھرنے کے بعد 8 ستمبر کو وفاقی حکومت کی جانب سے قائم مسنگ پرسنز کمیشن کے اراکین کوئٹہ تشریف لائے، انہوں نے ریڈ زون جاکر دھرنا میں شریک لواحقین سے ملاقات کئے اور لواحقین میں اکثر سادہ لوح ہماری مائیں تھی، جھنیں بابُوؤں نے دھرنے میں شامل کچھ لکھی پڑھی لواحقین کے ذریعے یہ باور کرائی کہ کمیشن والے یہاں آرہے ہیں وہ تمام مطالبات مان چکے ہیں اور تین ماہ میں حل ہونگے اگر کوئی بھی ذی شعور انسان مطالبات کے نیچے وفاقی وزیر قانون کے ریماکس پڑھیں انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ مسئلہ کا حل تجویز کریں گے، جس طرح بابُوؤں نے مطالبات تجویز کرکے لواحقین کو لکھ کر دئیے تھے اسی طرح وزیر موصوف نے بھی حل تجویز کرینگے لکھ کر چلتے بنے اور مائیں ایک بار پھر تیز طرار بابُوؤں کی میٹھی باتوں کی شکار ہوگئیں۔
اب یہ مائیں لاچار و بے بس ہے انہیں صرف اپنے لخت جگر چاہیے وہ نہ سیاست جانتے ہیں، نہ سازشوں کو سمجھتے ہیں نہ جھوٹ و فریب سے واقف ہے وہ انتہائی سادہ لوح اور صاف دل و نیت رکھنے والے ہیں اس لئے وہ دوسروں کو اپنی ہمدرد سمجھتے ہیں اُن کے لولی پاپ کو سچ سمجھتے ہیں، ان ماؤں و بہنوں کے علاؤہ دوسرے تمام لوگ مردہ خور ہے کچھ ذاتی خود نمائی و کریڈٹ کے لئے دھرنے کے اردگرد منڈلاتے رہتے تھے، اس گروہ کا کوشش ہے کہ لاپتہ افراد کی تحریک کا کریڈٹ انہیں دی جائے اور جو کردار گزشتہ 10 برسوں سے بلا تعطل، مسلسل و مستقل بنیادوں پر شب و روز جدوجہد کررہے ہیں، یہ گدھ انہیں ڈی کریڈٹ کرنے اور انہیں مختلف القابات و الزامات سے نواز کر بد گمانیاں پیدا کررہے ہیں، یہ سب اچانک اور متواتر کیوں ہورہے ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
ان کے علاؤہ کچھ نوجوان لڑکیاں ہیں جو اپنے لاپتہ والد، بھائیوں کے لئے سراپا احتجاج ہے وہ ان بابُوؤں کی صحبت میں رہ کر سیاست، سازش اور پروپیگنڈے سے بھی خوب آشنا ہوگئے ہیں، اب ملکر یہ سب کچھ وی بی ایم پی پر آزمانے اور تجربہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ٹارگٹ پر ماما اور نصر اللہ کو رکھ اس کا آغاز کرچکے ہیں، انہیں بابُوؤں کیساتھ سابق اور موجودہ سینیٹر حضرات، نومولود چند افراد پر مشتمل پارٹی، یک فردی یکجہتی کمیٹی، ایکشن کمیٹی کی بھی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ واللہ اَعلم بِالصَواب یہ تجربہ لاپتہ افراد کے ہزاروں ماؤں کی ارمانوں کی تکمیل کا موجب بنے گی یا پھر کچھ لوگ اپنے مفادات حاصل کرکے ماؤں کو چھوڑ کر نو دو گیارہ ہونگے یہ آنے والا وقت بتائے گی۔ 50 دنوں میں دھرنے میں جو کچھ ہوا، جو کچھ ہم نے دیکھا وہ واقعات اور داستانیں کسی مناسب وقت پر قلمبند کرکے حقائق سے پردہ کشائی کرنے کی کوشش کرینگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں