قومی تعمیر اور سیاسی ویژن – ایڈوکیٹ عمران بلوچ

499

قومی تعمیر اور سیاسی ویژن

تحریر: ایڈوکیٹ عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

(نوٹ: یہ أرٹیکل کافی عرصے پہلے لکھنا شروع کیا تھا، اس لئے کچھ نئے مواد اور ایشوز کے ساتھ ساتھ شاید پڑھنے والے کو پرانا لگے، بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر مسئلے جنم لیتے ہیں لہٰذا یہاں حتمی کچھ بھی نہیں ہوتا)

میری ناقص راۓ اور ذاتی مشاہدہ ہے کہ تعلیمی، تحقیقی اور سیاسی لحاظ سے کمزور اقوام ایشوز یعنی مسئلوں کو معاملات و واقعات دیکھ کر لکھتے ہیں۔ ان مسئلوں پر سیاست کرتے ہیں اور مسئلوں کا، معاملات کاغلط کریڈٹ لیتے ہیں یا کریڈٹ لینے کی کوشش میں نہ صرف غلط معلومات پھیلاتے ہیں بلکہ نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ جس کی نشاندہی نواب خیر بخش مری اور صورت خان مری اکثر و بیشتر کرتے رہے ہیں، انھوں نے اس عمل کو نعرہ بازی یا ایشوز کی سیاست کہا ہے۔ میں بھی ان کی اس راۓ سے اتفاق کرتا ہوں، ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ جب سایسی وژن کم ہو یا کمزور ہو علم و تحقیق نہ ہونے کے برابر ہو یا پھر لٹریچر بہت ضعیف ہو یا نہایت ہی کم ہو۔

ویژن یا تحقیق یہ ہے کہ سیاستدان وقوعہ ہونے سے پہلے اس کی نشاندہی کرے، دانشور بروقت اس پر لکھ کر مسئلے کی جانب توجہ مبزول کراۓ، اس طرح ان دونوں کی وژن سمجھ بوجھ ، حکمت عملی اور اشتراک سے مل کر بننے والا وژن قوم کو تباہی سے بچاسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں واقعہ پہلے ہوجاتا ہے، پھر سیاستدان بمعہ عملہ زندہ باد مردہ باد کرنے نکلتا ہے بالکل اسی طرح دانشور اپنا قلم اور کاپی لے کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر معاملہ یہاں أکر رکتا ہے کہ ایسا نہیں ویسا ہونا چاہیۓ تھا وغیرہ وغیرہ اور پھر شاعر کو بھی موضوع مل جاتا ہے اور مزید اگلے دن گلوکار بھی نغمہ لیکر مارکیٹ میں کود پڑتاہے۔ رہی سہی کسر یار لوگ یونیورسٹی کی کینٹین یا کسی تڑے پر بیٹھ کر سگریٹ کی دھویں کی نظر کردیتے ہیں۔ غرض سب کو مصروفیت کے معاملات مل جاتے ہیں۔

اب ڈنک واقعہ کو بلوچ عوام نے پزیرائ دی تو سب اس میں ایکٹو ہوگئے، مگر مند اور ہرنائی واقعے پر نجانے کس کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ کوئی أکر کچھ کریگا اور پھر یہ طبقات یا ڈیڈھ انچ کی مسجدیں اس میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ خضدار اور تربت میں جو احتجاج ہوۓ اور سیاسی ماحول بنا تو چند دن بعد ان سب کے أفٹر شاکس بھی دیکھنے کو ملے، حالانکہ مخالف نے نہایت حکمت عملی سے ایک ایک کرکے ایسے ایکٹوسٹس کو چن چن کر نشانہ بنایا اٹھواکر جھوٹے کیسز بناۓ تاکہ سیاسی ماحول نہ بن پائے اور خوف کا ماحول برقرار رہے، اب ایسا ہی کچھ ڈنک واقع کے بعد دیکھنے کو ملا یعنی کرونا کے دوران پچیس اور چھبیس مئی کی درمیانی شب تربت کے مضافاتی علاقے میں ایک حادثہ وقوع پزیر ہوا، جس سے ملکناز بلوچ شہید جبکہ ان کی چار سالہ بچی برمش بلوچ زہنی اور جسمانی طور پر شدید زخمی ہوئی۔ بعد کے واقعات بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ بلوچ خواتین کو اٹھانے، مارنے، جھوٹے کیسز بنانے کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ اس پر الگ سے لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں میرا مدعا یہ ہیکہ اس درد ناک واقع کے بعد سوشل میڈیا سے لیکر گلی کوچوں اور بازاروں میں ہر طبقہ اور مکتبہ فکر کے بلوچوں نے اس دلخراش واقع کی شدید ترین مخالفت کی تھی ریلیاں نکالی گئیں، جلسے جلوس منعقد ہوئے جبکہ ایک أدھ جگہوں پر دانشورانہ بحث مباحثے بھی شروع ہوۓ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ کچھ حقائق کو مد نظر رکھ کر اس بحث کو نہ صرف أگے لے جایا جاۓ بلکہ اسے رکنے بھی نہ دیا جائے تو یہ سیاسی ماحول کو ایک سمت دینے کیلئے ایک اچھی شروعات ہو سکتا ہے۔

اب مسئلہ یہ ہیکہ ماضی سے سیکھ کر أگے چلنے کے بجاۓ ہم نے ہمیشہ مسقبل کو کہیں کھو کر ماضی کی جانب رخ کیا ہے اور ایک مخصوص دائرے میں ہی رہ کر کھبی بھی اپنے صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش نہیں کی ہے کہ جس سے ہمارا افرادی قوت بن پاتا، اس کی مثال بی ایس او بلکہ أج کل کے تمام تنظیوں سے لی جاسکتی ہے۔

ان میں سے کسی کے بھی سربراہ خود طالبعلم نہیں، اب ایسا کرکے اپنی اور تنظیم سمیت باقی نسلوں یعنی افرادی قوت کا راستہ روکا گیا ہے ایسا ماضی بعید اور قریب میں بھی ہوتا رہا ہےاور أج بھی ہورہا ہے لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی روش یہی رہے گا۔ اس سے تو یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہم نے ماضی اور حال دونوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا اس لئے بہت سے سیاسی معاملات میں ہمارا رویہ سیاسی نہیں رہتا لہذا ہم اپنی مرضی و منشاء اور خواہشات کو بعض اوقات نظریہ اور سیاسی خیال کا نام دیکر قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ڈنک واقع سے پہلے اور اس کے بعد بلکہ زیارت اور مستونگ تک مسلسل واقعات رونما ہورہے ہیں، ایسے میں نظریہ علم و زانت اور کتاب کے نام پر ہر طرح سے شوق اور خواہشوں کو مسلط کیا جارہا ہے، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو سیلاب کی مماثلت سے ان اسٹالوں اور کوئیٹہ جناح روڑ کی جوتوں کی دکانوں کے فریم میں لگے بوٹس سے ملتا ہے۔ اب اگر لاہور سے کوئی سوشل میڈیا کے زریعے حکم نامہ صادر فرماۓ کہ کاش وہ کاہلی کا مظاہرہ نہیں کرتا تو بہت سے سیاسی اعمال کو روک سکتا تھا، لوگوں کو سمجھا سکتا تھا، منع کر سکتا تھا، ان کی سیاسی تربیت کرسکتا تھا، مگرانھوں نے ایسا نہیں کیا لہٰذا ایسے کسی بھی سیاسی عمل کے لئے وہ خود کو زمہ دار اور ملزم سمجھتا ہے، اب یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ أپ کون ہو؟ أپ کے اختیارات نظریہ اور پلیٹ فارم کونسا ہے؟ سب سے بڑھ کر سیاسی کردار و عمل کیا ہیں؟ اور ایسی باتیں یا تجویز کونسی پلیٹ فارم پر ہو سکتے ہیں یعنی ایسے رویوں اور نیتوں کا پتا چلتا ہے ورنہ تو ایسی باتیں اور دعوے کھبی مرحوم نواب خیر بخش مری حتیٰ کہ لینن مارکس اور بلوچ دانشور صورت خان مری نے بھی نہیں کئے ہیں ( ٹین ڈیز وچ شوک دی ورلڈ) نامی کتاب اس کی بہترین مثال ہے۔

ہاں البتہ مکالمے کا راستہ کھبی بھی اور کسی نے نہ روکا ہے اور نہ ہی رکنا چاہئے بشرطیکہ وہ عمل مکالمے تک ہی ہو وگرنہ کوئی بھی ایسا بیان کسی نے نہیں دیا ہے کہ فلاح سیاسی عمل غلط ہے میں نے اسے روکا کیوں نہیں، منع کیوں نہیں کیا، تبلیغ کیوں نہیں کیا یا ایسا ہوتا ویسا ہوتا وغیرہ وغیرہ لہٰذا میں ذمہ دار ہوں، ایسے وقت میں نظریہ سیاسی یا ادبی پلیٹ فارم اور سیاسی قد و کاٹھ کو دیکھ کر پوچھا جا سکتا ہے کہ أپ کون ہو ؟ کیونکہ بات سیاسی تعلق اور نظریہ کی ہی ہو رہی ہے۔ شک کی گنجائش اس لئےبھی ہیکہ معراج محمد خان سے لیکر لال خان تک دونوں مرحومین نے ہمیشہ بی ایس او کو فتح کرنے کی کوشش کی ہے اور دونوں نے اپنی اس کوشش میں ناکام ہوئے ہیں لال خان کا نہیں پتا ہاں البتہ معراج محمد خان نے نہ صرف یہ بات تسلیم کی ہے بلکہ اسے سیاسی غلطیوں میں سے ایک غلطی مانا ہے۔

دوسری بات جو برمش کمیٹی کوئیٹہ کے احتجاج کے بعد محسوس کی گئی کہ کوئیٹہ کمیٹی کو نہ صرف متنازع بنانے اور کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی گئی بلکہ تجاویز کے نام پر کچھ پیچیدگیاں بھی دیکھنے اور پڑھنے کو ملیں جو کہ کمیٹی اور اس تحریک کے خدوخال أئندہ کے لائحہ عمل اور تنظیمی طریقہ کار سے متعلق تھے اب یہاں پھر وہی سوال دہرایا جاسکتا ہے کہ کوئی کس حد تک اسٹیک ہولڈر ہے؟ اور کیا بحث کے لئے سوشل میڈیا ایک مناسب فورم ہوسکتا ہے؟ أیا ٹوئٹر اور فیس بک پر متعلقہ تعلق داروں کے سامنے رکھی جانی والے باتیں ہوسکتیں ہیں؟ یا ایسی باتوں کے لئے اجلاس کا ہونا لازمی ہے، سب سے غور طلب بات ایک ساتھی نے واضح طور پر لکھا تھا جس میں تجاویز اور تنقید دونوں باتیں تھیں اول یہ فیس بک پر اس کے ہزاروں دوست ہیں جن میں سے زیادہ تر اردو بولنے والوں کی ہے اور ڈنک واقع کے بعد متواتر وہ اردو میں لکھتا رہا ہے لیکن ایک بھی غیر بلوچ نے رائے دینا اپنی جگہ اسے لائیک کرنا بھی گوارہ نہیں کیا ہے لہٰذا أج کے بعد وہ صرف اور صرف بلوچی میں لکھے گا اور سب سے اہم کہ بلوچ اور بلوچیت کے ہوتے ہوئے برمش یکجہتی کمیٹی خضدار کی ریلی میں اردو زبان میں کیوں تقریر کی گئی؟ اول تو یہ کہ اگر فیس بک لسٹ والوں نے لائیک نہیں کیا یا رائے نہیں دی اب اسے ایک فرد کے ساتھ روا رکھا جانے والا اس کے دوستوں کا رویہ کہا جائے یا سب بلوچوں کے ساتھ؟ اور پھر توقعات کس سے کیوں اور کس تعلق کی بنیاد پر؟ تعلق سے مراد قومی اور سیاسی و نظریاتی تعلق۔

ماضی میں نواب اکبر خان اور سردار عطاءاللہ خان دونوں رہنما ایسا احتجاج کرچکے ہیں، ان کی سیاسی قد کاٹ بہت بڑی، افرادی قوت اور سیاسی پلیٹ فارم موجود تھے اور ان کا واضح سیاسی احتجاج تھا کہ اقتدار اعلیٰ پر براجمان لوگ جب بلوچ اور بلوچستان کی بات أئے تو گونگے، بہرے، بنتے ہیں لہٰذا اس لئے ہم ارباب اختیار / کالونائزرکی زبان میں بات نہیں کرتے اور اس سے بائیکاٹ کرتے ہیں۔ کیا یہاں بھی ایسا سیاسی رویہ ہے؟ اب جہاں تک اس کا دوسرا پہلو ہے کہ خضدار کی ریلی میں کیوں بلوچی یا براہوئی میں تقاریر نہیں کی گئیں؟ تو اس پر بولنے لکھنے سمجھنے اور غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور یہ بھی کہ کیا ایسا ممکن ہے اور کیسے ممکن ہے اور اب تک کیوں کر ممکن نہیں ہوا؟ کیا اس پر علمی، سیاسی سائنسی اور ادبی بحث کی گنجائش موجود ہے اور کیا اس کی وجوہات بھی ڈھونڈی جاسکتی ہیں یا ضرورت ہے؟ ڈنک واقع کے بعد پورے بلوچستان کی تمام چھوٹی بڑی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے، بشمول کراچی جسے بلوچ علاقوں کی حد تک بلوچستان ہی شمار کیا جاتا ہے۔ کچھ پشتون علاقوں، بشمول لاہور اور اسلام أباد میں بھی اس حوالے سے احتجاجی مظاہرے ہوئے، ایک معاملہ غور طلب ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں جیسا کہ نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل جو اب صرف پارلیمان تک اپنی سیاست کو محدود کر چکے ہیں کے علاقائی پروگرامز کے علاوہ جہاں جہاں بھی سیاسی پروگرامز ہوتے ہیں، ان کے مقررین میں شامل لوگ مختلف لسانیت سے تعلق رکھنے والے افراد ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ممبر شپ ہی ایسی ہوتی ہے حالانکہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے تو کسی بھی فورم پر کسی بھی شہر میں اور کسی بھی موضوع پر بلوچ کوئی پروگرام کرے تو اس میں شرکت کرنے والے افراد صرف اور صرف بلوچ ہی ہوتے ہیں لہٰذا اچھی بات ہیکہ بلوچی اور براہوئی میں بات چیت کی جائے یقیناً ان کے سننے والے بھی بلوچ بولنے والے بھی بلوچ غرض ہر طرف بلوچ تو پھر کسی اور کی زبان میں بات کیوں؟

غور طلب ہیکہ خالصتاً بلوچ أبادی کے درمیان بھی بلوچ علما کرام تک بلوچی اور براہوئی میں جمعہ کے دن تقریر نہیں کرینگے کیونکہ ان کی تعلیم بھی کسی اور کی زبان میں ہی ہوتی ہے، اپنی مادری زبان سے محبت کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی اور کی زبان سے نفرت ہے لیکن عقل کا تقاضا یہ ہے کہ سننے والے جو زبان أسانی سے سمجھتے ہیں، اسی زبان میں بات یا تقریر کی جائے اور دوسری بات اپنی زبان میں بولتے ہوئے شرمندگی یا احساس کمتری کا شکار کیوں ہوا جاتا ہے؟ اس کے بہت سارے وجوہات ہو سکتے ہیں اور یقیناً وجوہات ہیں مطلب رابطے کی زبان، قومی زبان، تعلیمی نظام، سرکاری و دفتری زبان اور مارکیٹ کی زبان یہ سب بہت غور طلب اور حل طلب مسئلے ہیں، جن پر ایک علمی، تاریخی، سیاسی اور دانشورانہ بحث کی اشد ضرورت ہے۔ خاص کر ماہر لسانیات کے خدمات درکار ہونگے، بہرحال اس معاملے میں سندھی اور پشتون قابل رشک ہیں، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو براہوئی زبان کو مستقبل میں ختم ہونے والی زبانوں میں سے ایک شمار کرتی ہے، ماضی قریب میں بھی بہت سی انسانی أبادیاں اور اقوام اس نازک اور پیچیدہ مرحلے سے گزر چکے ہیں لیکن وہاں کے دانشوروں نے نہ صرف اس معاملے میں قوم کی رہنمائی کرکے قوم کو ان پریشانیوں سے نکالا ہے بلکہ بے مقصد پیچیدہ اور غیرضروری بحث سے بھی خود کو اور اپنی قوم کو نکالا ہے۔ قوموں کے سیاسی سماجی اور عام انسانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ مکمل عروج و زوال کی ہی تاریخ ہے۔ ہاں البتہ جدید دور میں “واۓ نیشنز فیل اور کلیشز أف سیولائیزیشن ” میں اس کے لئے نئے طور طریقے بتائے گئے ہیں جو بلوچ جیسے ہر محکوم قوم کے لئے غور طلب اور معنی خیز ہیں۔ لیکن اقوام کو عروج پر لانے اور بحرانی کیفیت سے نکالنے والے بہتر رہنمائی کرنے والے ہمیشہ سے دانشور ہی رہیں ہیں ، بنیادی طور پر ان کی انتھک جدوجہد اور وژن نے قوم کی بہتر رہنمائی کی ہے۔

ماسوائے چند بلوچ سیاستدانوں سیاسی جماعتوں اور سیاسی طلبہ تنظیموں بشمول ادیبوں کے سیاسی معاملات اور قومی مفادات کے حوالے سے حکمت عملی بنانے اور صحیح معنوں میں پیشن گوئی اور پیش بینی کرنے میں شدید طور پر ناکام ہی رہے ہیں، ہاں البتہ ہمیشہ ایشوز کی سیاست : ایشو پالیٹکس : کی ہے، اب جیسا کے ڈنک واقع، مند واقع اور ہرنائی واقع یا پر حالیہ زیارت اور مستونگ جیسے واقعات، اس سے پہلے أن لائن کلاسوں کا مسئلہ وغیرہ صاف عیاں ہے کہ خضدار کراچی اور کوئیٹہ میں اردو یا بلوچی اور براہوئی میں تقاریر ہوئیں البتہ ان معاملات نے بہت سوں کی سیاسی اور قلمی زندگی کو بڑھایا اور انہیں زبان دی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاست دان اپنے وژن کے مطابق قومی سیاسی پروگرامز تشکیل دیتے، زبان دان ماہر لسانیت ادیب شاعر دانشور زبان طرز تحریر اور لہجے کے حوالے سے پہلے سے کام کرتے ان پر قانون سازی ہوتی تو مقررہ عمر یا وقت کے ساتھ ساتھ معاملات ٹھیک ہو سکتے تھے، مثال کے طور پر لاہور سے چند افراد نے ڈنک واقع اس کے علاوہ اکثر و بیشتر جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کیا ہے اور حالیہ سیلاب میں چندہ اکٹھا کرنے سڑکوں پر بھی نکلے ہیں تو کحھ لوگوں نے ان کی تعداد پر تنقید کی اب ایسے احتجاجوں کا تعلق قومی وابستگی قومی نفسیات اور کلچر کچھ حد تک زبان لیکن سر زمین سے خاص تعلق سے ہی منسلک ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہیکہ اختیار اور تعلق خاص کر وابستگی کیا ہے؟ کس نے کس کو اپنا رہنما اور لیڈر اور تعلق دار چنا ہے؟ نظریہ کیا ہے، پلیٹ فارم کونسا ہے؟ تسلیم کیا کیا گیا ہے؟ اگر یہ سب ٹھیک ہے لیکن پھر بھی غلطی تسلیم کرنے کا فورم کونسا ہوگا؟

قطع نظر غیر سیاسی رویہ اور سستی شہرت کے کیونکہ پھر بھی اس عمل کے لیے مناسب فورم درکار ہوگی، بات کرنے کے تعلق کو ظاہر کرنے کا تسلیم کرنے کے بعد اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو نسبت کیا ہوگی؟ تو پھر ( Dictorial Behavior) کیا ہے؟ یا پھر اس وقت کے حساب سے برمش یکجہتی کمیٹی کوئیٹہ پھر کراچی اس کے بعد برمش سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کوئیٹہ اور کراچی دونوں الگ الگ کمیٹیوں کو اپنے خدوخال اور طریقہ کار کو کس طرح چلانا چاہیئے۔

اب نجانے یہ تجویز تھی یا کچھ اور لیکن پھر سوال وہی دہرایا جاسکتا ہے ایسے بحث مباحثوں اور تجاویز پا پالیسی ترتیب دینے کے لئے سیاسی رویہ کیسا ہو اور فورم کونسا ہو؟ کچھ معاملات تو یونیورسل ہیں لہٰذا ان کو بدلا نہیں جاسکتا ہے، اب دو جمع دو چار ہی بنتے ہیں اور ہر جگہ ہر زبان میں چار ہی بنتے ہیں، بے شک انھیں تین جمع ایک کرلو پھر بھی چار ہی بنیں گے۔ پھر جتنا سمت بدلو نتیجہ وہی نکلے گا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ طب کے علاوہ مختلف ممالک کی حکومتوں نے کسی بھی انسان کی صلاحیتوں سے فائدہ حاصل کرنے کا ایک خاص عمر مقرر کر رکھا ہے، اس وقت کے پورا ہونے کے بعد ایسے شخص کو کسی بھی منسلک کام سے فارغ کرکے اس کے خدمات سے دستبردار کیا جاتا ہے جسے ریٹائرمنٹ کہتے ہیں۔ اب بلوچ کی سیاسی کمزوری یا روایات کا سیاست پر ہاوی ہونا ہے کہ فارغ شدہ شخص اپنی وقت گزاری یا کسی خاص مقصد کے لیے عمر گزاری کے بعد سیاست کرنا اور سیاسی ادارہ بنانا چاہتا ہے اور وہ اسے اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے ، کیا ماضی اور حال کی غلطیوں اور نیتوں، مقاصد اور مفاد پرستی کو زیر بحث نہ لایا جاۓ، کیا ماضی کی سچائیوں کو رد کردیا جائے؟ تو پھر تجربہ کیا ہے؟ کردار کیا ہے ثابت قدمی کیا ہے؟ ایسے بہت سے لوگوں کے حوالے سے سیاست کے بارے ذاتی حق اور رہنمائی اور وژن کی بات کرکے بہت سے حقائق کو مسخ کرکے اور چشم پوشی اختیار کرنے کا کہا جاتا ہے۔ اگر قوم اپنے سیاسی اختیارات اور شعور کو استعمال کرتے ہوئے کسی کو بھی کئی دہائی پہلے مسترد کردیں تو پھر بھی کوئی کہے نہیں جی حق ہے میں تو بس دیکھنا چاہتا تھا، بس ویسے ہی ، سیاست تو ایک سائنس ہےاور یہ ایک مخصوص سبجیکٹ بھی ہے جس کے اپنے پیراۓ ہیں اور اسے پولیٹیکل سائنس کہتے ہیں لوگ اسے پڑھتے ہیں سمجھتے ہیں اور پھر اپنے سماج میں عملی کام کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ڈسپلن نہ ہونے اداروں کی کمزوری چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے دکاندار ٹھیکدار ملازم بیوروکریٹ عمر رسیدہ سماجی اور جسمانی طور پر بیمار شخص اپنی شوق کی خاطر ڈیڈھ انچ کی مسجد بنا کر قوم کے اوپر دادا گری کرتا ہے یا پھر سیاست کے نام پر اپنا پیٹ پالتا ہے۔

اس کے علاوہ اپنے ماضی کو بھلاتا ہے کوئی بھی پروگرام اٹھا کر قوم پر مسلط کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ کچھ واہ واہ کرنے والے طبلہ نواز کہتے پھرتے ہیں کہ جی حق ہے انسانیت ہے جمہوریت ہے دیکھنا چاہتا تھا بس میں ناراض ہوں، لیلی مجنوں کی طرح بس ایسا نہیں کروں گا ویسا نہیں کروں گا کوئی مجھے مناۓ ، اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو أپ اس قوم کی تاریخ ثقافت روایات اور نفسیات سے واقفیت نہیں رکھتے نا بلد ہیں یا پر أپ اس غلط فہمی اور کم علمی کا شکار ہیں کہ لوگوں کا حافظہ کمزور ہے اور مزید اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ شاید بلوچ ایک قوم کی حیثیت سے سیاسی رموز و أداب سے واقفیت نہیں رکھتا ہے۔ تو ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ بلوچ سیاست میں سیاسی أداب ماضی حال کردار عمل احتساب کے مطابق سب جوابدہ ہیں بلکہ سب کو نہ صرف اس عمل سے گزرنا چاہئے بلکہ گزرنا ہوگا۔ ایسا اس لئے ہے کہ بلوچ قوم پرستی کی سیاست ستر سالہ ظلم جبر مسخ شدہ لاشوں ہزاروں مسنگ پرسنز اور ہر طرح کا ظلم قہر تکلیف برداشت کرتے بلوچ خواتین کا نام ہے۔

أج کی بلوچ سیاست کسی کی زاتی خواہش اور شوق کا میدان نہیں ہے، سیاست میں نیت نہیں تنظیم ، تنظیمی اور سیاسی پروگرام جس کا تعلق قوم کے معروضی حالات سیاسی بصیرت یا صلاحیت اور پروگرام کو دیکھا جاتا ہے کہ کون سا پروگرام کس وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے قوم کو کیا سیاسی قومی اجتماعی فائدہ ملے گا نہ کے شوق فراغت یا مزاج یا پھر یہ کہ سوشل میڈیا پر کوئی کسی کےپوسٹس پر کمنٹس نہ کرے تو اس پر فرینڈ ان فرینڈ کا مسئلہ پیدا ہو، ناراضگی ہو، بائیکاٹ کا سلسلہ چل نکلے، زبانوں سے دوری اختیار کی جاۓ تو ممکنات اور وسائل کیا ہیں؟ مزید یہ کہ خضدار جو خالصتاً بلوچ علاقہ ہے وہاں کی أبادی بھی بلوچوں کی ہے تو ڈنک واقع یا اور بھی بہت سارے واقعات کے خلاف نکالے جانے والی ریلیوں اور احتجاجوں میں شامل مقررین نے اردو میں کیوں تقریر کی ہے اور یہ کہ اردو میں تقریر کرنے کی وجہ کیا ہے اور ایسا کیوں کیا گیا؟ خیر اس بیان کے اولی حصے پر کچھ نہ لکھا جاۓ تو بہتر ہے کیوں کہ یہ زاتی نوعیت کا معاملہ ہے البتہ کوئ اگر اس پر عمل کرے سوچے یا زاتی نوعیت کا ہی معاملہ سمجھے، یہ لوگوں پر منحصر ہے جہاں تک خضدار ریلی سے مقررین کی اردو میں تقریر کی بات ہے، تقاریر کراچی کوئیٹہ اور خضدار میں اردو میں ہوۓ تھے، یہاں پر یہ بھی لکھتا چلوں کہ اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں شہید نواب اکبر خان بگٹی نے مادری زبانوں میں بنیادی تعلیمی نظام متعارف کرایا تھا جو ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی اور ادبی دانشوری کا شکار ہوکر أج تک ختم ہوگیا ۔اس سے پہلے اوپری لائنوں میں بھی میں عرض کر چکا ہوں کہ زبان رابطے کا زریعہ ہوتا ہے جو ایک مسلمہ حقیقت ہے لہزا سیاسی معاملات اور معاشی مقابلے میں میڈیا کی مجبوری یا پھر لالچ اور خود کی کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر رابطے کی زبان بازار/ مارکیٹ کی زبان اور میڈیا ہی کی زبان اختیار کی جاتی ہے یقیناً اس میں سامراجی اور قابض قوتوں کی مفادات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں جس کا واحد حل رونے پیٹھنے کے بجاۓ اپنا خود کا قومی میڈیا ہو یا پھر ہم اتنے صاحب چیثیت بن جاۓ کہ ان میڈیا والوں سے حساب لیا جاسکے جو بلوچستان کو ایڈ اور کمرشل کے نام پر لوٹ کر ایک طرح سے نمک حرام میڈیا بن کر ثابت کر رہے ہیں، مگر اس سب کے لیے قومی پارٹی، قومی لیڈر اور قومی تنظیم کا ہونا لازم ہے۔

ویسے أج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، لوگ سننے اور سمجھنے کے لئے بار بار ڈیمانڈ کرتے ہیں اردو میں تقیریر ہو یعنی ڈیمانڈ خضدار مظاہرے کے دوران دیکھنے کو ملا، اس کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں، جن پر تحقیق کرکے لکھا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ ایک قومی ادبی اور سیاسی بحث ہے سب سے بڑھ کر اس کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کہ یقیناً یہ ایک قوم کی شناخت کا معاملہ ہے۔ جس کا تعلق اس قوم کے سیاسی شعور سے وابسطہ ہے لہذا اس بحث کو ہرگز ختم نہیں ہونا چاہئےلیکن اس کے لئے مادری زبانوں میں تعلیم، قومی زبان پر اتفاق، مارکیٹ کی زبان کی اہمیت و افادیت اور مضبوط لٹریچر کا ہونا لازمی ہے۔

اس بارے ہمارے ادیب ، دانشور ضرور سوچیں اور لکھیں اب اگر اسی تناظر میں یورپ کی بات کی جائے خاص کر یورپ کی مجموعی طور پر عروج، نشاط ثانیہ، کی بات کی جاۓ تو یہاں یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ بھی علاقہ زبان نسل رنگ قبیلہ اور طبقے کی بنیاد پر منقسم تھے۔ مذہب پادری اور بادشاہ نے ان پر ایک قسم کا قبضہ کرکے استحصال کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ جس سے وہاں کے لوگ منقسم پسماندگی جہالت اور خوف کا شکار تھے۔ مگر وہاں جب روشن خیالی کی ادبی اور سیاسی تحریکیں چلیں تو ایک ایک کرکے ایسے تمام دیواریں منہدم ہوۓ، ایک طرف ڈیوینچی اور روسو تھے تو دوسری طرف مارٹن لوتھر سینیئر، مارکس، اینگلز سمیت بہت سے سائنسدان ادیب اور دانشور تھے۔ جنہوں نے اپنے سماج اور قوم کی حالت بدلنے کی ٹھان لی، جیسے کے چرچ اور پادری کے اثر کو ختم کرنے کے لئے مارٹن لوتھر کنگ سینئر نے نہ صرف خود بائبل کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا اسے پڑھا سمجھا بلکہ ہر شہری ہر سیاسی ورکر ہر کامریڈ اور ہر باشعور انسان کو اسے خود پڑھنے اور سمجھنے کی تلقین کی تاکہ چرچ اور پادری کے سیاسی اور سماجی قبضے سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے، دوسری جانب روسو سمیت اس وقت کے بہت سے دانشوروں نے نہ صرف لٹریچر کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا بلکہ عملی طور پر اس پر کام بھی کیا، صرف ایک انگریزی زبان کو نہ صرف رابطے کا بلکہ قومی زبان قرار دیا گیا حالانکہ اس وقت اور بھی بہت ساری زبانیں بولی جاتی تھی، جو أج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوۓ ہیں، مگر سب نے قومی تشکیل کی خاطر یا تو باقی زبانوں سے بالکل دستبردار ہوۓ یا اپنی اپنی حد تک ان باقی ماندہ زبانوں اور ان کی لٹریچر پر کام کیا لیکن مجموئ طور پر انگریزی کو رابطے کی یا قومی زبان کی حیثیت سے اپنایا جو ان کی سیاسی، سماجی، تعلیمی اور مارکیٹ کی زبان اور رسم الخط غرض ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے لگا، اس کے ساتھ ساتھ دیہاتوں اور قصبوں کے علاوہ نئے اور بڑے شہر أباد کرنے لگے اور پھر ان کی دیہی أبادی نے شہروں کی جانب رخ کیا، جہاں وہ مکس أبادی کی صورت رہنے لگے ایک دوسرے کی نفسیات سمجھے أپس میں رشتہ داریاں کی جس سے ان ان کی شادیاں اور رشتہ داریاں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے جس کی بہترین مثال جرمن قوم کی ہے ان کا اتحاد اور رشتہ داریاں دیوار برلن بھی نہیں روک پایا۔

اسی طرح ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کے افغان یا اس طرف کے افغان اور اس پار کے پشتونوں کو یہ لائن تقسیم نہیں کرسکا یا پھر ہم بلوچوں میں مکران، کراچی اور مغربی بلوچستان ایران کے بلوچ ، اس کے علاوہ نوشکی چاغی دالبندین اور افغانستان و ایران کے بلوچ اس کی مثالیں ہیں کہ جغرافیائی تقسیم اور لائنوں کے باوجود أپسی رشہ داریوں کی بدولت ان کا قومی اتحاد برقرار ہے۔ جسے سیاسی اتحاد بنایا جا سکتا ہے اور اس جانب گل خان نصیر نے نہ صرف لکھا ہے بلکہ اس کی ضرورت و اہمیت پر زور دیکر اسے وقت کی ضرورت قرار دیا تھا۔ جو میں سمجھتا ہوں، ہر وقت کی ضرورت رہے گی۔ ایک دفعہ میں نے بلوچ طالبعلم دوستوں سے یہ عرض کیا تھا کہ بلوچستان میں سرد اور گرم علاقوں تعلیمی اداروں کی چھٹیاں موسم کی مناسبت سے مختلف ادوار میں ہوتی ہیں لہذا اگر شال کے دوست ان چھٹیوں میں مکران گھومنے کی غرض سے جائیں اور وہاں براہوئی زبان میں شورٹ کورس پڑھائیں، اس کے ساتھ ساتھ وہاں گھومے پھریں کاروبار کریں لوگوں سے ملیں اور اگر اسی مناسبت سے کسی کا تعلق بنتا ہے تو بھلے شادی بھی کرلیں، بالکل اسی طرح مکران اور کراچی کے دوست خضدار کوئئٹہ اور دوسرے علاقوں کی جانب اپنے علاقوں کی چھٹیوں کی مناسبت سے وہاں چھٹیاں گزارنے جاہئں، وہاں رہیں مقامی بلوچوں سے گھل مل جائیں اور انہیں بلوچی پڑھائے خود براہوئی زبان سیکھیں، أپس میں رشتہ داریاں کریں، کاروبار کریں، قومی تعلق میں أپسی رشتہ داریوں نے پوری انسانی تاریخ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاہے وہ قتل و خونریزی کی تاریخ ہی کیوں نہ ہو۔

اس پڑھنے پڑھانے اور سرٹیفکیٹ کورس کی بہترین مثال سید ظہور شاہ ہاشمی ریفرینس لائبریری ملیر ہے اس سلسلے میں ان کی بھی معاونت حاصل کی جاسکتی ہے، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ ایک دوسرے کی علاقائی نفسیات عادات و معاملات کو سمجھنے میں مدد ملے گی، نزدیکیاں ہونگی، بہت سی غلط فہمیاں دور ہونگی اور بہت سی سازشی عناصر کی سیاسی پروپگینڈہ کو روکا جاسکے گا۔ بہت سے عناصر اپنی موت أپ مر جائینگے۔ اب اگر کسی براہوئی بولنے والے کا کسی مکران کراچی یا کوہ ء سلیمان کے بلوچی بولنےوالے سے رشتہ داری ہوجائے اور ایسے خاندان عزیز و اقارب کے سامنے کوئی علاقہ زبان اور قبیلہ کی بنیاد پرنفرت پھیلاۓ، کوئی منفی ایجنڈا رکھتا ہو تو ایسے لوگ کسی بھی سیاسی پارٹی تنظیم دانشور اور ادیب سے پہلے ہی اس کی مخالفت کرکے اس کی سازش کو ناکام بنادینگے لیکن أج کے حالات میں کتنے براہوئی بولنے والے بلوچ ہیں، جو براہوئی اور بلوچی میں پڑھنا لکھنا جانتے ہیں؟ کتنے بلوچی بولنے والے بلوچ ایسے ہیں جو براہوئی بولنا اور پڑھنا لکھنا جانتے ہیں؟ یا اسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے، جو دونوں زبانوں میں بولنا جانتے ہیں ہاں البتہ براہوئی بولنے والے ایسے بلوچوں کی تعداد زیادہ ہے، جو بلوچی بولتے ہیں البتہ اس کی نسبت براہوئی بولنے کے معاملے میں یہ تعداد بہت کم ہے۔ لٹریچر کا معاملہ الگ سے ہے اس میں قوم پرست سیاسی پارٹیوں ان کی قیادت بلوچ طلبہ تنظیموں دانشوروں اور ادیبوں سمیت زبان دانوں کا نہایت اہم کردار بنتا ہے اور ان پر بھاری قومی زمہ داری عائد ہوتی ہے ، دیکھا جائے تو براہوئی زبان کو مضامین سلیبس اور سیاست میں مخالف نے ہمیشہ غلط طور پر پیش کرنے اور استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس بابت کتابیں شائع کروائی گئیں پمفلٹس نکلواۓ گئے، مختلف تنظیمیں پرنٹنگ پریس اور اکیڈمیز تک بنوائے گئے۔ رہی سہی کسر معلوم تاریخ کی کتابوں نے پوری کردی۔

کوچ و بلوچ عرب شام حلب ہجرت نمرود حمزہ ، اب اس سب سے بلوچوں کو نکل کر سائنسی تحقیق کی جانب راغب ہونا چاہئے. دوسری طرف اب اگر أج کے دور میں بلوچ ادیب دانشور قوم پرست ماہرین لسانیت اس طرح اپنے کام سے ایک بنیاد فراہم کریں کہ زبان وہی رہے مگر اسے ساراوانی بلوچی، جھالاوانی، بلوچی کا نام دیا جائے تو اس میں نقصان کیا ہے؟ لیکن یہ ادیب دانشور سیاست دان کریں تو بہتر ہے، ہمارے ہاں سادگی اتنی ہے کہ ہم قوم قبیلہ قبائل زبان علاقہ کے درمیان فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سازش کی سازش الگ سے ہے، پھر بلوچ ویسے بھی علاقے کو ملک اور زیلی قبیلہ تک کو قوم کہتا ہے، مگر اب وقت أگیا ہے کہ ان سب سے نکلا جائے، غور طلب ہیکہ پڑھے لکھے لوگ بھی اس تاثر کا شکار ہیں۔

ایک دفعہ میں نے ایک بلوچ ادیب و لکھاری سے کہا، دیہاتوں میں قبیلہ اور قوم کے فرق یا سیاسی و علمی تعریف کو ہماری سادگی نے ختم کیا ہے تو کہنے لگے ہم بلوچ ویسے بھی قوم اور قبیلہ کے درمیان فرق نہیں کرتے تو میں نے عرض کیا کہ سازش کیا ہے، أیا اس سے واقفیت ضروری ہیکہ نہیں اور أج کے جدید حالات کا تقاضہ کیا ہے؟ کیا قوم زبان قبیلہ علاقائی نسبت زبان کی نسبت فرق کو جاننا ضروری نہیں ہے؟ کیا أپنی نزوری اور مخالف کے سازشوں کو جاننا اور سمجھنا ضروری نہیں ہے؟ کیا کمزوریوں کا خاتمہ ضروری نہیں یا بس فرد اپنی ذہنی تسکین کی حد تک وقتی طور پر جو جی میں أئے لکھے اور کہا جائے أپ کس زمانے میں ہو ان باتوں سے نکلو تو کیا حقیقتاً ہم ان مسائل سے نکل چکے ہیں؟ کیا یہ مسائل میرے منظم ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے ہیں؟ کیا کالونائزر نے ان معاملات کو سازش کے تحت میرے خلاف استعمال نہیں کیا ، میرے سادہ لوح بھائیوں کو نہیں بہکایا ہے انھیں پریشان اور مایوس نہیں کیا ہے کیا ان غیر ضروری عوامل نے میرے سفر کو پیچیدہ اور طویل نہیں بنایا ہے؟ کیا حکمت عملی حق اور لازم نہیں ہے؟ میں سمجھتا ہوں قومی تشکیل جدید خطوط پر استوار ہونا لازمی ہے، جس کا موقع بلوچ خواتین نے کافی حد تک ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں فراہم کردیا ہے ہاں البتہ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کونسا سوال کب کہاں اور کس سے پوچھا جائے کونسا خیال کب کہاں اور کس فورم پر پیش کرنا ہے۔

میں سمجھتا ہوں یہ سب لازمی اور قابل بحث ہیں، مگر اس سب کے بعد سننے کو ملتا ہے کہ جی نہیں میں تو ایسا کہنا نہیں چاہتا تھا یا میرا مطلب وہ نہیں تھا یا یہ میری زاتی رائے ہے تو پھر تنظیم تجربہ ڈسپلن أئین اصول ان سب کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ چیک اینڈ بیلنس سزا و جزا عمل کے دوران نظر انداز ہو کیونکہ نیت صاف تھی، ماضی کو مدنظر رکھ کر تجربے نے کیا سکھایا، جواب یہی ملے گا، نہیں جی لوگوں نے میری بات کو نہیں سمجھا اور میری بات کا غلط مطلب نکالا گیا ہے یا یہ ایک خیال ہے۔

اگر کسی ایک فرد کی کہی گئی یا لکھی گئی بات کو ڈیڈھ سے دو کروڑ بلوچ اگر نہ سمجھے، تو عقل کا تقاضہ ہے کہ ایسا کہنے والا اپنی بات پر دوبارہ غور کرے، اسے واپس لے اور اس غلطی کو یہ سوچ کر مان لے کہ أخر غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے، بجائے یہ کہنے سے اگر دو کروڑ نہیں تو پانچ سے دس لاکھ بلوچوں نے میری بات کو نہیں سمجھا اور اس بات کا غلط مطلب لیا ہے، اگر ایسا ہے بھی تو وہ بات کیوں کیا جائے، جسے قوم کا ہر فرد مسترد کردے۔ دو ہزار چھ میں یہ بی ایس او کے کونسل کا فیصلہ تھا دونوں زبانوں کو ہر بلوچ سیکھے، پڑھے، سکھاۓ اور ان میں لکھے، اگر میرا اندازہ غلط نہیں تو براہوئی بولنے والے بلوچ بلوچی بولنے والے بلوچوں سے اس معاملے میں سبقت لے گئے ہیں، یونیورسٹیاں بھی اس معاملے میں نہایت اہم کردار ادا کر سکتے تھے لیکن فی الحال ایسا کرنے سے وہ قاصر نظر أتے ہیں، اب اگر تربت، پنجگور، گودار، خاران، خضدار اوتھل، وڈھ سبی سمیت بلوچ علاقوں کی تمام یونیوسٹیز میں براہوئی اور بلوچی ڈپارٹمنٹس ہوتے اور ان کا مقصد قوم و زبان کی خدمت ہوتی تو بہت سارے مسئلے حل ہو سکتے تھے، پر شاید بلوچستان تونیورسٹی میں ان دو ڈیپارٹمنٹس کی حالت دیکھ کر سب ڈر گئے ہیں۔

یونیورسٹیز صرف نوکری کی غرض سے نہیں بنائے جاتے بلکہ تحقیق اور قومی تعمیر کیلئے ہوتی ہیں .قوموں کا سفر ہزاروں لاکھوں سالوں پر محیط ہوتا ہے، اس لئے ماہر لسانیت شاعر ادیب دانشور لکھاری قوم پرست قوم دوست، سیاست دان سب اپنی اپنی زمہ داریوں کا احساس کریں ایک سنجیدہ رویہ لیکر اگے ائیں تو کافی کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔ بس حکمت عملی وسیع سوچ اور دور اندیشی کے ساتھ ساتھ سچ بولنے سچ لکھنے اور سچ کہنے سچ کو برداشت کرتے ہوئے، ذاتی مفادات سے بالاتر ہونے کی ضرورت ہے۔ دیکھا گیا ہیکہ سیاسی اداروں اور رویوں کی جانب ستر سال یا اس سے پہلے جو ہمارے اکابرین کے رویئے تھے أج تک وہی رویےّ قائم و دائم ہیں اندازہ کریں ایک معاملے کو منطقی انجام تک پہنجاۓ بغیر دوسرا شروع کرنا۔ اب یا تو سستی شہرت کا شوق یا غیر سیاسی رویہ دونوں نقصاندہ ہیں، مثال کے طور پر ہر دور میں بی ایس او نہ صرف دھڑا بندی کا شکار رہی ہے بلکہ ہر دور میں سرکاری ملازم اس میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں، حتیٰ کے سیاسی پارٹیوں سے ورکر نکال کر بی ایس او میں لائے گئے ہیں اور عہدیدار بنائے گئے ہیں۔ بی ایس او کی اس پچپن سالہ تاریخ میں بمشکل سلیکشن کے بجائے الیکشن ہوئے ہیں اور کونسلروں نے اپنے عہدیدار خود أزادانہ طور پر چنے ہیں یہ سلسلہ أج بھی جاری ہے پھر لڑتے جھگڑتے یعی ملازم ہیں اور بدنام معصوم طلبہ ہوتے ہیں کوہئٹہ ریڈ زون پر بیٹھے دھرنے کے دوران کسی بھی سیاسی سمجھ بوجھ اور مشاہدہ کرنے والے انسان کو بہت کچھ دیکھنے سمجھنے اور سننے کو ملا، یعنی ان کو وڈھ أواران مشکے کوہلو خضدار ڈیرہ بگٹی سے پہلے بلا کر پھر بے یار و مدد گار چھوڑا گیا۔

یہ سب مسافر مجبور اور ضرورت مند درد زدہ ٹوٹے ہوئے لوگ تھے بہت سوں کا غم یہ تھا کہ کسی کا فرزند أٹھ دس سال سے غائب ہے، مگر ان کے ساتھ دو لفظ بولنے والا اور دو لفظ سننے والا بھی نہیں ہے کہ ان کا ذہنی تناؤ بہتر ہو سکےانھیں سنا نہیں گیا، ہمسایہ علاقہ دار اور عزیزوں نے تعلق سلام دعا مرک زند سانگ و سانگ بندی توڑا اور ختم کیا ہے اور کہا گیا ہے، اپنا گھر بیچو علاقہ چھوڑو تم دہشت گرد ہو نکل جاؤ زمینوں پر قبضہ ڈرانا دھمکانا عورتوں اور بچوں کا پحیچھا کروانا کردار کشی کرنا یا مخبری کرو اور سرنڈر کرواؤ تو تمھارے بندے کو چھڑوا دینگے یا میں نے کالے انگریز ڈی سی اے سی ایس ایچ او کو لکھ کر دیا ہے، دھرنا ختم کرو میں استعفی دیتا ہوں، ان کو ایسا کیوں بلیک میل کیا جاتا ہے استعفی دینا اور واپس لینا کسی کو اس وقت نمائندہ بنانا اس سب کی ان دنوں ضرورت کیوں پڑی؟ پھر تنظیم نہ ہو، کمرہ ہو، کوئ أئے جاۓ نکلے دروازے سے اندر کھڑکی سے باہر غیر سے گلا نہیں اپنوں نے جو رلایا وہ أنسو کھبی خشک نہیں ہوتے۔ کیا ان کو بلا کر بٹانا پھر استعفی سیلاب کے نام پر انھیں چھوڑ کر تحریک چلانا یہ کیا ثابت کرتا ہے جب تنظیم ان لواحقین کے نام پر بنی ہے اور وہ خود چوک پر بیٹھے ہیں تو کیا ان دنوں بھی الگ سے ڈیڈھ انچ کے مسجد کی ضرورت تھی، اگر لگانا تھا تو ان کے ساتھ اسی چوک پر لگتا اس پر مزید بی ایس او کی روزانہ کی لڑائیاں کتاب کو بدنام کرنا؟ مزے کی بات ہے فہیم جیسا کتاب دوست پبلشر اغوا ہوا ہے، ان کو اس معاملے پر لڑنا جھگڑنا احتجاج کرنا چاہئے تھا پر نہیں ادہر چپ کی سانپ سونگ گیا ہے، انھیں، سیاسی سنجیدگی کا یہ عالم بیس تنظیمیں ممبر ایک بھی نہیں کل تعداد پچاس بھی نہیں، ان انجمنوں کی أخر ضرورت کیا ہے؟

اوپر سے ظلم یہ کرتے ہیں، جس میں سیاسی سمجھ بوجھ ہوگی وہ بیچارہ ممبر ہوگا پر ڈراہئنگ روم والے صاحبان مرکزی عہدیداران، یہ ہے ہمارا اجتماعی سیاسی میرٹ۔ یہ لواحقین کا کہنا تھا کہ انہیں بیچ راہ پر چھوڑ دیا گیا ہے، یہ بالکل ایسا ہے جیسے یہ سمجھے بنا کہ بلوچ سماج سیکولر ازم اور نیشنل ازم کی بنیاد پر قائم ہے۔ نیشنل ازم کو ختم کرو تو قبیلہ زبان علاقہ زیلی کی بنیاد پر تقسیم ہونگے اور تقسیم کئے جاہئینگے سیکولر ازم ختم کرو تو کوئی منجن والا ہماری عورتوں کی چادر کپڑوں مردوں کی داڑھی اور گھر سے نکلنے کا فیصلہ کرے گا، یہ سب بھول کر مولانا کے نام أرٹیکل لکھے گئے ٹویٹ کیا گیا اچھے خاصے قد کاٹھ والے انسانوں نے یہ عمل کیا، کیسے پھول گئے، وہ جماعتی ہے، بنیاد پرست ہے۔ نہیں جی دشمن کا دشمن دوست تو یہ حب علی نہیں بغض معاویہ ہے، جس میں کوئی سیاسی حکمت نظر نہیں أتا، حسین کے دوست یزید کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں اور اب غلطی تسلیم کرنے کے بجائے، ملا کے خلاف فتوے دیۓ جارہے ہیں کہ جماعت اور ملا الشمس ابدر کی تاریخ دہرا رہے ہیں۔ بخر ہمارا وژن کہا گیا؟ اپنے اور دشمن کی ماضی کیوں نظر انداز کرتے ہیں؟ بہرحال زمین پر موجود تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے نمائندے صرف جان خلاصی کر رہے ہیں باقی مکمل طور پر وقت گزاری کے سوا ناکام ہیں، جو بچتا ہے وہ اصل مالکوں سے ملے بغیر دانشوری اور تجزیہ کے نام پر دکانداری ہے۔

أج سب کے پاس جو پروگرام بچا ہے وہ مسنگ پرسنز کا ہے، جسے لواحقین خود بخوبی چلا رہے ہیں، سنبھال رہے ہیں۔۔۔ یقین مانے مزاحمت اور مسنگ پرسنز کے معاملے کو اگر الگ کریں تو ان پارٹیوں ان کے لیڈروں تنظیموں دانشوروں شاعروں کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا سوائے قحط الرجال کے۔ لواحقین نے ٹویٹر اسپیسز میں خود گلا کیا کہ انھیں بیچ راستے میں اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا ٹویٹر نے ویسے رہی سہی دانشوروں کی کسر پوری کردی ہے زیادہ تر میزبان نشے میں دھت ہوکر آتے ہیں نہ تیاری نہ سوال اور خود ہی بھول جاتے ہیں موضوع کیا ہے۔ سوال شروع کرکے ختم کرنا بھول جاتے ہیں اور تجزیہ کرنے لگتے ہیں، پھر نقاد بن جاتے ہیں یعنی حال ہمارے أج کے مکمل سیاسی کلچر کا ہے۔ ان تمام سیاسی رویوں کو دیکھ کر مجھے بارک اوبامہ کا نواز شریف اور پاکستانی سیاسی کلچر پر دیا گیا بیان یاد أرہا ہے کہ أئین، ملک قانون انسانوں کے لئے بنتے ہیں اور اگر میں چاہوں تو تیسری دفعہ بھی جیت سکتا ہوں پر مجھے میرے ملک کا قانون اجازت نہیں دیتا پر کمال کرتے ہیں وہ لوگ جو اپنے ملک کا قانون ایک فرد کے لیے تبدیل کرکے اسے تیسری بار وزیر اعظم بناتے ہیں، اگر میں اس میں اضافہ کروں تو جواب ملتا ہے کاغذ کا ٹکڑا ہے یا قرانی أیت تو نہیں، مگر کیا ہم بلوچ ایسا رویہ برداشت کر سکتے ہیں؟

اب اندازہ کریں اقوام متحدہ جیسے ادارے یا اس کے سیکریٹری جنرل بارے اچھے خاصے پڑھے لکھے دوستوں کا معلومات اتنا ہے کہ جی اس کے أنے کے ڈر سے دھرنا ختم کرایا گیا ہے۔ اول یہ کہ وہ کوئی لوکل این جی او کا سربراہ نہیں، دوئم اس کے پرٹوکول پرگرام شیڈول میٹنگ منٹس سب پہلے سے طے ہوتے ہیں، جو کسی کے لیے نہیں بدلتے، سوم ہم مان لیں جو دوست بتاتے ہیں ایسا ہے تو اس تک یہ بات پہنچاۓ گا کون ان کے ہاں فرد نہیں ادارے کام اور فیصلے کرتے ہیں تو کیا اتنی سالوں کی تکلیف درد مسنگ پرسنز أپریشنز کا اب تک اقوام متحدہ کو کچھ پتا نہیں ہے، بس اس دھرنے سے پتا چلتا؟ حالانکہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے رولز ایسا نہیں کہتے ہیں، چلو پھر بھی مان لیتے ہیں تو پھر بہت سی بلوچ سیاسی پارٹیوں ان کے لیڈروں اور سماجی کارکنان جو خاص کر باہر بیٹھے ہیں ان پر نہ صرف انگلی اٹھتی ہے بلکہ پھر وہ تنقید کی زد میں ہیں اور جواب دہ ہیں مگر پھر بھی دوست یو این اور اس کے سیکریٹری جنرل بارے جو سمجھ رہے ہیں ایسا نہیں ہے۔

بہرحال بلوچوں کو أج ایک قومی سیاسی پارٹی تنظیم اور قومی لیڈر کی اشد ضرورت ہے خاص کر نواب خیر بخش جیسے ایک سمبولک کی اشد ضرورت ہے جو صرف گراونڈ پر موجود ہو اور رابطے کا زریعہ بنے جو دور دور تک بنتا ہوا نظر نہیں أتا نظر اتے ہیں تو سیاسی اور قلمی بونے اور ڈیڈھ انچ کی مسجدیں، ایسا محسوس ہوتا ہے نواب خیر بخش اور سردار عطااللہ کے مرنے سے بہت سی قوتیں نہ صرف خوش ہیں بلکہ أب ازاد ہیں کہ جو چاہے کریں کیونکہ ان پر نظر رکھنے والا اور پوچھنے والا کوئی نہیں اسی لیے تو سیاسی پارٹیاں تو اپنی جگہ یہ جو کالے انگریز کے بیوروکریٹ ملازم جو دن کو قوم پرست اور رات کو نالے کے اس پار مشورہ دینے جاتے ہیں ان کا براہوی اور بلوچ اکیڈمی پر قبضہ نہ ہوتا اور بلوچ اکیڈمی اپنے گرانٹ کی خاطر ہائی کورٹ کے سامنے بھرے مجمع میں مبارک قاضی کو شرابی نہ کہتا وہ تو خیر ہو جج کا اور چند دوسوں کا جو انھیں ڈانٹا منع کیا اور احتجاج کی خاص کر پشتون جج نے ان سے زیادہ مبارک قاضی کے قومی خدمات کی تعریف کی ، انھوں نے تو ایک دن اس حد تک بحث رکھا تھا کہ مکران سے براہوئی بولنے والے بلوچوں کو نکالا جاۓ تو مزاحمت ختم ہوگی۔۔۔ میں بس اتنا جانتا ہوں أپ کے ترازو میں نہ ہماری جگہ ہے اور نہ قیمت۔۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں