پاور کمپنیوں کے واجبات کی ادائیگی اور سی پیک پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کو تحفظ دینے کے لیے کیے گئے اقدامات اور یقیندہانیوں کے باجود چین نے پاکستان سے اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس پر مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوںکے درمیان اب تک کئی امور پر اعتماد پوری طرح بحال نہیں ہوا۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے گزشہ ہفتے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاسکے موقع پر ہونے والی ملاقات میں کہا تھا کہ “پاکستان میں کام کرنے والے چینی کارکنوں اور کمپنیوں کو ٹھوس تحفظ فراہم کیاجائے۔“
چین کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق گزشتہ جمعے ازبکستان کے شہر سمر قند میں دونوں ملکوں کےرہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں چین نے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان چینی شہریوں اور چینی اداروں کی سلامتیکے ساتھ ساتھ چینی کاروباری اداروں کے قانونی حقوق اور مفادات کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔
سمرقند میںٰ پاکستان کے وزیر اعظم اور چینی صدر کی ملاقات کے فوری بعد پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نےچین کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے چین کے وزیرِ دفاع سے ملاقات کی تھی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے رابطوں کے باجود بعض امور حل طلب ہیں جن میںچینی پاور کمپنیوں کو واجبات کی ادائیگی کا معاملہ سرِفہرست ہے۔
پاکستان میں اقتصادی امور کے تجزیہ کار فرخ سلیم کہتے ہیں کہ عمومی طور پر چینی حکام پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاملات پرآن ریکارڈ بات نہیں کرتے اور وہ پاکستان سے بھی یہی توقع کرتے ہیں۔
تاہم چین نے پہلی بار کھلےعام پاکستان میں اپنے شہریوں کی سیکیورٹی اور توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والی چینیکمپنیوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی ہے۔ فرخ سلیم کے نزدیک یہ اس جانب اشارہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بعض امورپر اعتماد پوری طرح بحال نہیں ہوا۔
رواں برس اپریل میں کراچی یونیورسٹی اور جولائی 2021 میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبےپر کام کرنے والے چینی کارکنوں کی بس پر ہونے والے حملوں میں متعدد چینی شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
ان حملوں کے بعد پاکستان نے چینی سرمایہ کاروں اور چینی کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔البتہ سیپیک اتھارٹی کے سابق سربراہ منصور خالد کہتے ہیں کہ ان حملوں کی وجہ سے بیجنگ کو چینی کارکنوں کے تحفظ کے بارے میںکچھ خدشات ضرور ہو سکتے ہیں۔
منصور خالد کے بقول، صدر شی جن پنگ نےمناسب سمجھا ہوگا کہ وہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی براہِ راست توجہ اپنے تحفظاتکی جانب دلائیں۔
دوسری جانب حال ہی میں اسلام آباد میں پاکستان کے وزارت داخلہ کے حکام اور چینی حکام کے درمیان سی پیک کی سیکیورٹیسےمتعلق ہونے والے مشترکہ اجلاس میں سی پیک کے علاوہ دیگر منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے علیحدہمشترکہ ورکنگ گروپ کے قیام کی تجویز پر بھی غور کیا گیاہے۔
پاکستان کے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے حال ہی میں چینی پاور کمپنیوں کے واجبا ت کی ادائیگی اور تحفظات دور کرنے کے لیے ایکاجلاس میں وزارتِ خزانہ، پاور ڈویژن اور سی پیک کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
خیال رہے رواں سال اپریل کے مہینے میں کراچی میں کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ارکان کو ایک فدائی حملے میں نشانہ بنایا گیا جسمیں تین چینی شہریوں سمیت 4 افراد ہلاک و فورسز اہلکاروں سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔
حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے کیمجید برگیڈ کی پہلی خاتون فدائی شاری بلوچ نے یہ حملہ کیا۔
پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو بلوچ آزادی پسندوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے بلوچآزادی پسندوں کیجانب سے سی پیک و اس سے منسلک منصوبوں کو حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
جبکہ گذشتہ پانچ سال کے دوران سی پیک و دیگر پراجیکٹس پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور ورکروں کو شدید نوعیت کے پانچ فدائی حملوں میں نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ مذکورہ حملے بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کی جانب سے کی گئی۔