پاکستانی فورسز ایف سی نے ایران سے متصل بلوچستان کے علاقے دشت کپکپار سرحدی تجارت کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک معاہدہ جاری کیا ہے جس کے مطابق علاقہ معززین اور معتبرین کی بار بار درخواست پر حکومتی اداروں کی کاوشوں کی وجہ سے کپکپار کراسنگ پوائنٹ بارڈ ٹریڈ کیلئے دوبارہ کھولا جارہا ہے تا کہ تربت اور دشت علاقہ کی عوام بارڈر ٹریڈ کے ذریعے روزگار حاصل کرسکیں اور پرامن تجارت کے معاشی ثمرات سے فائدہ اٹھائیں۔
معاہدے کے مطابق کپکپارکراسنگ پوائنٹ، بارڈر ٹریڈ کیلئے صرف اس ضمانت پر کھولا جائے گا کہ علاقہ معززین اور معتبرین پورے دشت علاقہ میں کسی بھی قسم کی مسلح کارروائی نہ ہونے کی گارنٹی دیں گے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل نکات پر بھی پورا اتریں گے۔
معاہدے کے متن کے مطابق علاقہ معززین اور معتبرین عوام کے ساتھ مل کر پورے دشت علاقہ میں کسی بھی آزادی پسند کو نہ ہی پناہ دیں گے اور نہ ہی کوئی تعاون کرینگے۔
ایف سی نے کہا ہے کہ علاقہ معززین اور عوام بلوچ آزادی پسندوں کی علاقے میں موجودگی کی صورت میں فوراً قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ جبکہ علاقے میں موجود آزادی پسندوں کے سہولت کاروں کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کریں گے۔
معاہدے کو مشروط کیا گیا کہ پہلے سے موجود علاقے میں بلوچ آزادی پسندوں کے گھر والوں اس بات کا ذمہ دار ٹہرایا جائے گا کہ وہ جلد از جلد اپنے بچوں کو واپس بلوالیں۔ اگر بارڈر ٹریڈ سے منسلک کوئی بھی شخص یا اس کا کوئی رشتہ دار آزادی پسندوں کے ساتھ تعاون کرے گا یا رابطہ رکھے گا تو اس کی گاڑی کو ضبط کر لیا جائے گا اور قانون کے مطابق سخت سزا کا مستحق ہوگا۔
اس معاہدے کے مطابق اگر مستقبل میں پورے دشت علاقہ میں کسی بھی قسم کی مسلح کاروائی ہوئی تو کپکپار کراسنگ پوائنٹ کو بارڈرٹریڈ کیلئے اس وقت تک بند کر دیا جائیگا جب تک حکومتی ادارے کارروائی میں ملوث ملزمان اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار نہیں کر لیتے ہیں۔
مزید شرائط رکھی گئی کہ کراسنگ پوائنٹ بند ہونے کی صورت میں کوئی احتجاج نہیں کیا جائے گا اور اگر احتجاج کی کوشش کی گئی تو اس میں شامل افراد کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائیگی ۔
دوسری جانب سرحدی کاروبار سے منسلک لوگوں نے اس معاہدے کو بلوچ روزگار کش قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی فورسز اور ادارے اپنے ناکامیوں کو چھپانے کے لئے عوام کو استعمال کرکے یہاں مزید حالات کو کشیدہ کرنا چاہتے ہیں۔
جبکہ سرحد کاروبار پر ٹوکن سسٹم کو متعارف کرکے پاکستانی فورسز حکام کی جانب سے کروڑوں روپے کمائے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ سرحد کاروبار سے منسلک حلقوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ طریقہ کار کے ذریعے ایک ٹوکن لاکھوں روپے میں فروخت ہوتی ہے جبکہ قانونی طور پر اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔