ترقی، سیلاب، ریاستی سردار اور بلوچستان
تحریر: آصف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان اس وقت ریاستی جبر، قدرتی آفتوں، بحرانوں، سیاسی کرپشن اور حکومتی بدانتظامی کا مکمل شکار ہے، انسانی زندگیوں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں، لوگ انتہائی تکالیف اور مشکلات میں گِھرے ہوئے ہیں، سیاسی جماعتیں عوامی مشکلات و مصائب کا تدارک کرنے انہیں ان آسمانی و زمینی جبر، آفتوں اور بحرانوں میں سہارا دینے اور زندگی کے پہیے کو ایک بار پھر رواں دواں کرنے کے لئے ان کی مدد کرنے کے بجائے حکومتی، جوڑ و توڑ اور وزارتوں کی بندر بانٹ کے لئے سرگرداں ہیں، ایسے حالات میں جب نصیر آباد،جھل مگسی سے لیکر لسبیلہ تک لوگ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوکر گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں، سڑکوں و میدانوں پر بے یار و مدد گار کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں، بیماریوں نے بہت بڑی آبادی کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے، اگر انہیں بروقت طبی سہولیات اور شیلٹر فراہم نہیں کی گئی تو اب سردیاں شروع ہونے والی ہیں تو ایسے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
جھل مگسی سے لیکر نصیر آباد اور لسبیلہ تک مطلق العنان بادشاہت قائم رہی ہے، اب بھی آب و تاب سے قائم ہے، جام، جمالی اور مگسیوں کی نسل در نسل اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود یہ علاقے صومالیہ، کانگو اور ایتھوپیا کا منظر پیش کررہے ہیں، یہاں کے باشندے جدید دور میں زندگی کی تمام بنیادی سہولیات و ضرویات صاف پانی، علاج معالجہ اور تعلیم سے یکسر محروم ہیں، انہیں قدرت نے ترقی و خوشحالی سے محروم نہیں رکھا ہے بلکہ یہ جام، جمالی و مگسی سرداروں کی ظلم کی چکی میں پسے ہوئے ہیں اور تاحال پس رہے ہیں، تمام انسانی ضروریات اور حقوق سے محروم ہیں اور اس ترقی یافتہ جدید دور میں بھی یہاں کے باشندے زمانہ قدیم میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
جام، جمالی، مگسی سردار انگریز کے زمانے سے لے کر تاحال حکومتوں میں شامل رہے ہیں اور پاکستان بننے کی حامی رہے ہیں اور جام آف لسبیلہ نے اپنی ریاست پاکستان میں شامل کی، مختلف ادورا میں اعلیٰ حکومتی عہدوں، وزارتوں میں فائز رہے ہیں، وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ اور وزیر اعلیٰ بھی یہی سردار رہے ہیں، نام نہاد سرکاری سرداروں کا لائف سٹائل بدل گیا لیکن عوام تاحال کسمپرسی کا شکار ہے، اُن کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے، اور حکومت ہمیشہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کا زمہ دار سردار و نواب ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کے تمام سردار و نوابوں کو پالتے اور عوام پر مسلط بھی خود ریاست کرتی ہے، تین بلوچ سردار ہمیشہ ریاست کو کھٹکتے رہے ہیں، وہ ہمیشہ ریاستی جبر کا شکار رہے ہیں، اب وہ تینوں عوامی بلوچ سردار نہیں رہے، نواب اکبر خان بگٹی کو ترقی دشمن قرار دے کر جنرل مشرف نے ایک فوجی جارحیت میں مار دیا لیکن آج نواب بگٹی کی شہادت کو 16 برس گزر گئے لیکن ڈیرہ بگٹی کے لوگ پانی کے لئے سراپا احتجاج ہے، نواب خیر بخش مری کی رحلت کو 8 برس اور سردار عطاء اللہ مینگل کی رحلت کو ایک برس گزر چکا ہے لیکن وڈھ و کوہلو کے پسماندہ حال انسانوں کی زندگیوں میں کوئی خوشگوار تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے اور دوسرے تمام سردار بقول جنرل مشرف 73 سردار اُن کے یعنی ریاست کے ساتھ ہے لیکن وہاں بھی شہد اور دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہے بلکہ پسماندگی، درماندگی، جہالت، بھوک، افلاس غربت و مفلسی وہاں کے لوگوں کے چہروں پر جھلک رہی ہے۔
ریاست اور یہ ریاستی سردار لوگوں کو یہ جواب دیں کہ ان حلقوں میں کیوں بدترین پسماندگی کا دور دورہ ہے؟ دوسرے علاقوں میں مزاحمت رہی ہے اور اب بھی مزاحمت ہورہی ہے لیکن یہ علاقے کبھی بھی سیاسی و مسلح مزاحمت کا حصہ نہیں رہے ہیں اور پرامن رہے ہیں پھر ان علاقوں کو ریاستی سردار اور ریاست ماڈل و مثالی سٹی بنانے میں کیوں ناکام رہے ہیں؟
بلوچستان پر ریاست اپنی گملوں میں تیار کردہ مصنوعی قیادت کو مسلط کرکے انہیں یہ مکمل چھوٹ دیتی ہے کہ وہ لوگوں کی استحصال کریں، انہیں پسماندگی، ناخواندگی اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیلے تاکہ لوگ اپنے حقوق، خودمختاری، بنیادی انسانی، سماجی و معاشی حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھا سکیں بلکہ انہی مصنوعی عوامی نمائندوں کے رحم و کرم پر ہوں، جھل مگسی، نصیر آباد اور لسبیلہ کے لوگوں کو سیاسی طور پر مکمل دبایا گیا ہے اور تعلیمی میدان میں بھی مکمل پسماندہ رکھا گیا، تاکہ جمالی، مگسی اور جام کی بادشاہت قائم رہے اور ریاست انہیں استعمال کرکے بلوچستان کی وسائل، مال و متاع لوٹے انہیں بطور رشوت حکومتوں میں حصہ دار بناکر کرپشن کا بازار گرم کیا جائے۔
بلوچستان میں سیاست، سیاسی عمل کو بے توقیر کرنے کے لئے جام کے بعد قدوس بزنجو جیسے انتہائی نالائق، غیر زمہ دار اور عیاش شخص کو بلوچستان پر مسلط کیا گیا جو کسی المیہ سے کم نہیں، قدوس بزنجو حقیقتاً کسی یونین کونسل کا کونسلر بننے کا بھی اہل نہیں لیکن بلوچستان کیونکہ مقبوضہ علاقہ اور فوجی تجربہ گاہ ہے یہاں اصل حکمرانی فوج کی ہے وہ ایسے نالائق، کرپٹ اور بد دیانتدار، ٹیسٹ ٹیوب افراد کو جان بوجھ کر مسلط کرتے ہیں تاکہ اپنی لوٹ مار کو ان کے پیچھے چھپا سکیں اور دنیا کو یہ باور کرایا جاسکے کہ بلوچستان کی بنیادی پسماندگی کا زمہ دار وہاں کے سیاسی و عوامی نمائندے ہیں، ریاست کو اب اس غیر جمہوری کھیل، سیاست میں مداخلت، مصنوعی سیاسی قیادت کی حوصلہ افزائی سے دستبردار ہونا چاہیے۔
اگر ریاست نے اپنی یہ فوجی ڈاکٹرائن تبدیل نہیں کی اور حقیقی عوامی نمائندوں کا راستہ روکتی رہی اور جام،جمالی، مگسی، قدوس، ضیاء لانگو، مٹھا خان، جیسے لوگوں کو اسمبلیوں کا زینت بناتے رہے تو بلوچستان اس طرح بد انتظامی، کرپشن، ناانصافیوں کی زد پر ہوگی اور حالیہ بارشوں اور سیلاب نے ریاستی ترقی کا پردہ چاک کردیا، بلوچستان میں ترقی، خوشحالی کے تمام دعوؤں اور نام نہاد سرکاری سرداروں کو سیلاب و بارشوں نے مکمل بے نقاب کردیا اور گزشتہ 75 سالوں کی ترقی لسبیلہ، جھل مگسی اور نصیر آباد میں عیاں ہے کہ ریاستی ادارے اور ریاستی سردار و نواب کس طرح ملکر بلوچستان کے مفلوک الحال عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہے ہیں۔
کرپشن کی نئی داستانیں سامنے آرہے ہیں نصیر آباد اور جھل مگسی میں امدادی سامان سیلاب متاثرین میں تقسیم ہونے کے بجائے یہ نام نہاد سردار اور وڈیرے اپنے گھروں میں جمع کررہے ہیں اور لوگ کھلے آسمان تلے سڑکوں پر پڑے ہوئے ہیں اور بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں، موسمی تبدیلی سے بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ بھی ظاہر کی جارہی ہے، لیکن آمدہ اطلاعات کے مطابق قدوس بزنجو اپنی کرسی کو بچانے، اپوزیشن خصوصاً مذہبی ٹھیکیدار اقتدار میں شمولیت و سرکاری مراعات کے لئے بے چین و بے قرار بلوچستان سے دور اسلام آباد میں اور ملحد ادکارہ انجلینا جولی سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے، سیلاب زدگان خوراک و ادویات کے لئے سڑکوں پر مارے مارے پھیر رہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں