بی ایس او (بامسار) کی سیاسی ڈرامہ بازی اور ان سے کچھ سوالات ۔ حکمت قمبر

578

بی ایس او (بامسار) کی سیاسی ڈرامہ بازی اور ان سے کچھ سوالات

تحریر:حکمت قمبر

دی بلوچستان پوسٹ

ذہنی کشمکش ہو یا نظریاتی، دونوں انسانوں کیلئے بہت زیادہ پیچیدگیاں، مسائل اور رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ زہنی کشمکش کا تعلق اور حد اگر ایک فرد تک ہوتی ہے تو نظریاتی کشمکش ایک گروہ تک، یعنی پورا گروہ نظریاتی کشمکش میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تاہم، دونوں یعنی زہنی و نظریاتی کشمکش انسانوں کو موضوعی اور معروضی حقیقتوں سے نا آشنا کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ وژن، مقصد، اہداف، سمت، منزل یا زندگی کو بامعنی ڈائریکشن دینے میں محروم رہتے ہیں اور اگر پھر بھی مقصد کے تعین میں قدرے کامیاب ہوجائیں۔ تاہم، ہوا کے ایک جھونکے کیساتھ ٹوٹ جاتے ہیں اور کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوا انہیں کہیں بھی لے جاکر گرادیتا ہے یا گم کردیتا ہے۔

بی ایس او( بامسار) بھی ان سیاسی تنظیموں میں سے ایک ہے جو نظریاتی کشمکش (ideological complication) کا شکار ہے یا یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اس کی نظریہ ایک کاکٹیل یا مکس اچار کی مانند ہے جو کئی نظریاتی عناصر یا اجزاء سے بنائی گئی ہے۔ آج تک اس کی نظریات کے متعلق ساری تنظیمیں اور سیاسی کارکنان پریشان ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میرے ساتھ کئی دیگر دوست دو سال سے زیادہ عرصہ باقاعدہ اس کا حصہ رہے، تمامتر سیاسی تعلیم و تربیت کے باوجود اس کی نظریات ہمارے لیئے unintelligible رہے اور مختلف مقامات پر مختلف مسائل پر اس تنظیم کی نظریاتی موقف یا پوزیشن کے متعلق کنفیوزڑ رہے اور آج بھی میں ضمانت کیساتھ کہتا ہوں کہ ان کے کیڈرز سے اگر پوچھا جائے کہ ان لوگوں کی نظریہ کیا ہے؟ تو وہ بیچارے معصومانہ مسکراہٹ کے سوا کوئی جواب نہیں دے سکتے۔

اس نظریاتی کشمکشِ کے علاوہ، اس تنظیم میں ایک اور برائی شد و مد کیساتھ exist کرتی ہے۔ وہ برائی نظریاتی بددیانتی یا منافقت ہے۔ یعنی اس کے سیاسی کردار یا قول و فعل میں بھی کافی تضادات پائے جاتے ہیں خاص کر قومی سوال کے متعلق، اگرچہ قومی سوال کے بارے میں ایک مبہم آئینی موقف رکھتے ہیں مگر اس موقف کے پرچار یا تقویت کیلئے کوئی عملی کمٹمنٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ مزید برآں، ان سے اگر بلوچی زبان، ثقافت، جغرافیہ یا تاریخ کے متعلق سوال پوچھا جائے، تو ان کو سانپ سونگھ جاتی ہے اور اگر کوئی جواب دے، تو درست اور ڈھنگ کیساتھ نہیں دے سکتے اور تمامتر حربوں اور بہانوں کے باوجود ان کی قومی تاریخ یا دیگر پہلوؤں کے متعلق لاعلمی اور لاتعلقی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ان کے اسٹڈی سرکلز مارکسی نظریات کے بابت ہوتی ہے۔ لہذا، اس کے تمام کیڈرز( خضدار زون کو چھوڑ کر) اپنی قومی لٹریچر سے دور اور ناواقف ہیں۔ خیر، قوم، قومی سوال اور قومی شعور ان کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، تو کوئی مسئلہ نہیں۔

حانی بلوچ سے تو ہر کوئی واقف ہے کہ وہ پچھلے برس 2021 ستمبر کے مہینے میں طبی وجوہات کی بناء پر رحلت کرگئی۔ تاہم، حانی بلوچ کا نام یا کردار اس وقت زبان زدعام ہوا جب انکی موت کی خبر چلی۔ انکی وجہِ موت کافی متنازع ہوئی۔ یہ متنازع بی ایس او کی غیر زمہ دارانہ بیانوں سے ہوئی کیونکہ جس دن ان کا انتقال ہوا، اگلے دن بی ایس او کے سابقہ چیئرمیئن کی جانب سے ایک خبر چلی کہ حانی بلوچ کی موت کوئٹہ پولیس کی تشدد، لاٹھی چارج اور شیلنگ سے ہوئی ہے۔ اس کے بعد، بی ایس او کے موجودہ جونیئر جوائنٹ سیکرٹری شیرباز بلوچ نے اس بیان کی تائید کی اور ایک ویڈیو میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جی اس کی موت پولیس تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جس سے پوری بلوچ قوم میں ایک غم و غصہ ابھرا اور انہوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار باقاعدہ سوشل میڈیا پر کیا اور ایک سنسنی خیز hype نے جنم لیا۔

تاہم، وہ hype ایک دم، دم توڑ گیا جب بی ایس او بامسار کے موجودہ سیکرٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے اسی دن اپنے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حانی بلوچ کی موت دراصل پولیس تشدد سے نہیں بلکہ طبی وجوہات کی بناء ہوئی ہے اور وہ وجوہات کرونا اور دست(motion) قرار دیئے گئے۔ لہذا، مختلف مگر متضاد بیانات کی وجہ سے پوری بلوچ قوم پھر سے تذبذب سے دوچار ہوگیا کہ اب کس کی بات پر یقین کریں ظریف رند کی، شیرباز بلوچ کی یا اورنگزیب بلوچ کی؟ خیر یہی معاملہ کچھ وقت تک چلا اور چونکہ بلوچ قوم کی توجہ اور دلچسپی کا دورانیہ وقتی اور یاداشت کمزور ہے، لہذا، وہ اس معاملے کو وقت کے بہاؤ کیساتھ بھول گئی۔

تاہم، بی ایس او نے اپنے متضاد بیانات کی وجہ سے قوم کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے اور پھر سے اپنے لیئے ہمدردی و سپورٹ بٹورنے کیلئے ایک موقع پرستانہ موقف اپنایا اور دعویٰ کیا کہ حانی بلوچ ان کی تنظیم کا ایک سرگرم رکن اور جہد کار تھی اور وہ ریاستی ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے طبی طور پر مرگئی۔ اس لیئے، اس کو شہادت کا درجہ دیتے ہیں اور بی ایس او کا شہید ہے۔ اس حوالے سے، انھوں نے سوشل میڈیا میں موقف دیئے اور اس کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے کینڈل واک اور vigil انعقاد کیا گیا۔ تاہم، اس موقف کی وجہ سے رفتہ رفتہ تنظیم کے اندر اختلافات کی دراڑ پیدا ہوئی کیونکہ کچھ زمہ دار اور مخلص ساتھیوں نے جب تحقیقات کیا تو ان کو کوئی ایسا ثبوت یا شہادت نہیں ملی جس سے وہ حانی بلوچ کی رکنیت اور بی ایس او کے نظریات سے جڑت کی تصدیق کرسکیں، تو لہذا، کچھ ساتھیوں نے اس پر سوالات کئے، تنقید کیا اور ناراضگی کا اظہار بھی کیا کہ تنظیم کی قیادت نے تنظیم کو جھوٹ، موقع پرستی اور غیر سنجیدگی کی شاہراہ پر کیوں لاکر گامزن کردیا ہے مگر قیادت اس جھوٹ پر ڈھٹائی کیساتھ بضد رہی اور آج تک یہ معمہ یا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔

اب بی ایس او بامسار نے کل حانی بلوچ کی پہلی برسی پر مختلف زونز کو اعلامیہ جاری کیا ہے کہ وہ اس کی پہلی برسی کو انقلابی احترام و جذبے کے تحت منائیں۔ اس سلسلے میں، بی ایس او کی قیادت اور کیڈرز کے سامنے کچھ سوالات پیش کرتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ وہ میرے سوالات کا جواب دینا پسند کریں گے۔

سوالات:
1۔ بی ایس او بامسار کی آئین میں لکھا ہے کہ ” ہر وہ طالبعلم جو تنظیم کے اغراض و مقاصد سے فکراً و عملاً اتفاق رکھتا ہو۔ رکنیت کی فیس ادا کرنے اور ممبرشپ فارم پُر کرنے پر تنظیم کا باقاعدہ رکن بن سکتا ہے۔” اب بی ایس او بامسار سے سوال ہے کہ اگر حانی بلوچ ان کی تنظیم کی ایک رکن تھی، تو اس کی ممبرشپ فارم کہاں ہیں؟ کیا ان کے پاس حانی بلوچ کی ممبرشپ فارم ہے بطور شہادت یا ریکارڈ ہے؟ اگر ہے تو پبلک کریں، اگر نہیں ہے تو وہ کیسے اور کیونکر بی ایس او بامسار کی ممبر بن گئی۔

(نوٹ: جب حانی بلوچ انتقال کرگئی، تو جی آر بلوچ شال زون کا صدر، شہیک بلوچ شال زون جنرل سیکرٹری اور میں یعنی حکمت قمبر جامعہ بلوچستان یونٹ سیکرٹری تھا۔ تو ہمارے پاس شال زون کے تمام ساتھیوں کے ممبرشپ فارم تھے سوائے حانی بلوچ کہ اور اس سے سیاسی تعلق کجا، شناسائی تک بھی نہیں تھی)

2۔ جب حانی بلوچ کی موت واقع ہوئی، تو بی ایس او کے سابقہ چیئرمئن ظریف رند نے کیوں شال زون کے جنرل سیکرٹری شہک بلوچ کو فون کرکے حانی بلوچ کی رکنیت کے بارے میں پوچھا تھا اور جب ان کو واشگاف الفاظ میں بتایا گیا تھا کہ وہ ہماری تنظیم کا ممبر نہیں، اس کے باوجود انھوں نے اس کی رکنیت کا دعویٰ کیوں کیا؟ اور کس بنیاد یا جسٹیکفیکشن پر؟

3۔ اگر حانی بلوچ بی ایس او بامسار کی ممبر تھی، تو وہ مرکزی اور زونل واٹسیپ گروپ میں کیوں ایڈ نہیں تھی؟ اور شال زون کے تمام ساتھیوں سے اس کی رکنیت یا سنگتی کو کیوں راز میں رکھا گیا تھا۔

4۔ حانی بلوچ کا سیاسی کردار کیا تھا؟ وہ کہاں کہاں اور کس پلیٹ فارم پر بی ایس او کی کاز کیلئے برسرپیکار ہوئی تھی؟

( نوٹ! پی ایم سی ایشو کے وقت وہ ایک آزاد سیاسی ایکٹوسٹ کے طور پر ایکٹوِ تھی اور اس سے پہلے انکی کوئی سیاسی face نہیں تھی)

آخری سوال، بی ایس او بامسار کا اعلان کہ تمام زونز میں حانی بلوچ کی پہلی death anniversary کو انقلابی احترام اور جذبات کے تحت منائیں کیونکہ وہ ان کی ایک نظریاتی سنگت اور سرگرم جہدکار تھی۔ کیا کینڈل واک اور شمع روشن کرنا ایک انقلابی عمل ہے، کیا یہ عمل انقلابی عزت و احترام کے دائرے میں آتی ہے؟ یا یہ اس معصوم گودی کی موت پر سیاسی موقع پرستی، ڈرامہ بازی اور اپنی پژمردہ سیاست کو شکتی فراہم کرنے کی کوشش ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں