بگ برادر – افروز رند

312

بگ برادر

تحریر: افروز رند

دی بلوچستان پوسٹ

دراصل وہ ہم سے ہماری تنقیدی علم چھین کر، ہمیں پتھر کے زمانے کی زندگی میں واپس بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ ہم چوپایوں کی طرح دن کو چریں اور رات کو سوئیں اور اپنی سوچ کو بالکل بند کریں۔ Hena Arantلکھتی ہیں کہ فاشزم اور Totalitarianریاست معاشرے کو تقسیم کرکے عوام کو کنٹرول کرتے ہیں تاکہ کسی بغاوت کا امکان نہ ہو، اور پبلک کے پاس بالکل آزادی اور سیاسی شعور نہ ہو اور نہ کسی کے پاس سیاسی و فلسفیانہ خیالات ہوں، یہاں سب کی ایک طرح کی ذہن سازی کی جاتی اور ایسے کتابوں پر پابندی لگائی جاتی ہے جو انسان کو Critically سوچنے پر مجبور کرتے ہیں جیسے. A Case of Exploding Mangoes/ Nineteen Eighty-Four /

یہاں ریاست حمیرا احمد اور حامد زید جیسے نام نہاد لکھاریوں کے کتابوں کو عام کرکے سیاسی سماجی فلسفیانہ سوچ کو روکنا چاہتا ہے تاکہ عوام کو اصل تنقیدی شعور سے روکا جائے تاکہ یہاں شاھ دولے کے چوہے جیسے پیدا ہوں، جنہیں صرف اپنے آج کے علاوہ کسی چیز کا پتہ نہ ہو۔

یقینی طورپر بلوچستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو ریاست اسلئے نشانہ بنارہی ہے کیونکہ ملک کے کسی اور دوسرے حصے کے بجائے یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوان جانتے ہیں کہ پاکستان نظریہ ضرورت کے مطابق بنایا گیاتھا تاکہ سویت یونین کو آگے آنے سے روکا جائے، اسلئے پاکستان اس خطے کی 5 ہزار سالہ تاریخ کے بجائے کبھی محمد بن قاسم امپورٹ کرتا ہے تو کبھی ارتغرل کیونکہ پاکستان بذات خود ایک ایسے سراب کا نام ہے جسے اپنا مصنوعی وجود امپورٹڈ ہیروز میں نظر آجاتا ہے۔

پاکستان ایک روگ ریاست ہے جسے بدقسمتی سے عالمی برادری نے ہمیشہ آکسیجن فراہم کرکے زندہ رکھا ہواہے ۔ جو لوگ پاکستانی ریاست کے جبری اور استبدادی پالیسیوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی جبری گرفتاری کی کہانی کو جاننا چاہتے ہیں انہیں جارج آرویل کا ناول Nineteen Eighty-Four ضرور پڑھنی چاہیے۔

اس کتاب میں میں یہ لکھا ہواہے کہ totalitarian ریاستوں میں کیسے ،جگہ جگہ استبداد اور جبر ہوتی ہے اور ریاست تمام شہریوں سے ان کی آزادی چھین لیتاہے، ہر جگہ اور ہر گلی کوچے میں کیمرے لگے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ معاشرے کو کنٹرول کیا جائے، جو وہ سوچ رہے ہیں انہیں اس سے روکا جائے اور اپنی ریاستی مفادات کے مطابق ان کی تربیت کی جائے۔

صاف لفظوں میں انہیں ایک ایسے دروازے سے گزارا جائے تاکہ سب ایک جیسے بن جائیں اور کوئی کچھ اچھا لکھنے اور کرنے سے قاصر رہے اور اس طرح کے خطرناک کتابوں سے بھی بچیں جوکہ ان کی تشریح کے مطابق ریاست مخالف ہیں۔

1985 ناول میں آرویل لکھتا ہے کہ ایک Big Brothers نام سے ایک اتھارٹی ہوتی ہے جوکہ سب کچھ کنٹرول کرلیتی ہے، ایک Totalitarian حکومت ہوتی ہے جوکہ آپ کو ہرجگہ نظر آجاتا ہے آپ چاہے ٹی وی لگائیں یا اسکول کے کتابیں کھولیں وہ نظر آئے گا اگر آپ پینا فلیکسوں کو دیکھیں وہ نظر آجاتا ہے اگر آپ روڈ پر چلتی گاڑیوں کو دیکھیں یا ریل گاڑیوں کو Big brother ہر جگہ پایا جاتاہے، آپ اپنے مرضی سے دوسری TVچینل نہیں دیکھ سکتے آپ کے سوچنے کو قید کیا جاتاہے ، کیونکہ Big brother ہر چیز کو دیکھ رہاہوتاہے، آپ کسی سے آزادنہ تعلقات قائم نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کو کسی بھی وقت ان کے مطابق نہ چلنے پر لاپتہ کیا جاسکتا ہے، Big Brothers ریاست میں اشرافیہ اور آمروں کے بڑے محل اور مکانات و بلڈنگ ہوتی ہیں جب کہ عوام بدحال اور خستہ حال ہوجاتی ہے کسی بھی وقت قدرتی آفات ان کا بستر گول کرسکتے ہیں۔

اس ناول میں ایک کردار ہوتا ہے جس کا نام ونسٹا سمتھ ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے اس معاشرے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے، سمتھ یہ کرتاہے کہ اس بگ برادر والی حکومت سے نفرت کرنا شروع کردیتا ہے لیکن وہ کسی کو یہ بات کر نہیں سکتا کیونکہ اس کو پتہ ہوتاہے کہ اگر اس نے یہ بات کسی سے کی تو پھر وہ لاپتہ ہوجائے گا، وہ گھر میں چھپے اپنا ڈائری لکھنا شروع کردیتا ہے، وہ اپنی سوچ وہاں پہ درج کردیتا ہے اور لکھتا ہے کہ مجھے نہیں پتہ کہ اس سے پہلے اس ریاست میں ہوتا کیا تھا کیونکہ جب سے میں دیکھ رہاہوں سب کچھ صرف بگ برادر ریاست کے مطابق لکھا گیاہے اور تاریخ بھی بگ برادر کے مطابق لکھی گئی ہے ،وہ کہتاہے کہ یہاں میرا دل نہیں کرتا یہاں آزادی نہیں ہے، اس کے زندگی میں صرف دو انسان ہوتے ہیں ایک، اوبرئں ،ایک جولیا، اوبرائیں کسی پارٹی کا ورکر ہوتاہے اور جولیا دفتری کام کرنے والی عورت ہوتی ہے، جولیا سمتھ کو پسند ہوتاہے لیکن وہ اس کا اعتراف نہیں کرتا، کیونکہ وہ ڈرتاہے کہ جولیا بگ برادر ٹیم جیسے خیالات رکھنی والی نہ ہو، ایک دن جولیا اس کو کسی کاغذ پہ لکھ کہ دیتا ہے کہ وہ اسے پسند کرتاہے، وہ پہلے حیرت زدہ ہوجاتاہے کہ یہ کوئی سازش نہ ہو پھر وہ اسے قبول کرلیتی ہے وہ چھپکے اپنی محبت جاری رکھتے ہیں ایک دن سمتھ جولیا کو بتادیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اور یہاں کی بگ برادر سے خوش نہیں کیونکہ یہاں بگ برادر صرف اپنی تعریف کے علاوہ کچھ سننے کو تیار نہیں جولیا بھی کہتی ہی کہ میں بھی یہی سوچتی ہوں، ان دونوں کا اتحاد بن جاتاہے اور پھر یہ دونوں خفیہ طریقے سے انقلاب کی جدوجہد شروع کردیتے ہیں، پھر سمتھ ابرائں کے پاس جاتاہے اور گھر بلاتاہے جب ابرائں سے بات کرتاہے پہلے وہ حیران ہوجاتاہے پھر کہتاہے کہ تم سچ کہہ رہے ہو، میں اس ماحول سے بھی تنگ ہوں پھر وہ اسے ایک کتاب تحفے میں دیتا ہے،سمتھ بہت خوش ہوجاتاہے پھر ایک رات وہ کتاب پڑھ رہاہوتا ہے کہ پولیس دروازہ توڑ کر اسے گرفتار کرکے لیجا تاہے اور کہتاہے کہ تمہیں سوچنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔

سمتھ جان جاتاہے کہ ابرائں بگ برادر کا بندہ تھا اور اس نے اپنا منہ کالا کردیا۔پھر اس کو منسٹری آف لو میں لیاجاتاہے یہ وہ جگہ ہوتاہے جہاں بگ برادر کے خلاف سوچنے والوں کو خاموش کیا جاتاہے ،سمتھ کو بہت مارتے ہیں پھر روم 11 میں بند کردیتے ہیں وہاں پہ چوہے ہوتے ہیں اور بگ برادر والے جانتے ہیں کہ یہ چوہوں سے بہت ڈرتاہے، ایک دن سمتھ کے چہرے کو بکسے میں بندھ کرکے کہتے ہیں کہ اس پہ چوہے چھوڑ دینگے وہ بہت ڈرتاہے، اور تو بہ کرتاہے، کہتاہے کہ جولیا پہ چوہے چھوڑ دو مجھے چھوڑیں کیونکہ وہ جولیا کے بارے میں بھی سوالات کررہے ہوتے ہیں، اس سے پوچھتے ہیں کہ تم پہ چوہے چھوڑیں یا جولیا پہ وہ توبہ کرکے کہتاہے کہ چوہے جولیا پہ ڈالو مجھے چھوڑ دو۔

جولیا کیلئے جو محبت اس کے دل میں ہوتی ہے [بگ برادر]والے اس کا بھی برکس نکلواتے ہیں اور بگ برادر والے جولیا کو بتاتے ہیں کہ اس نے یہ بات کی ہے اب بگ برادرز کو یقین ہوجاتا ہے کہ جو آخری سچائی ہم نے اس کے ذہن میں ڈالی ہے اب یہ تا ازل رہے گا اور اگر کوئی اس سے 2+2پوچھے تو یہ 5بولے گا سچائی بھول جائیگا کیونکہ ہم نے اسے سکھا دیا ہے پھر باہر آنےپر جولیا کو دیکھتا ہے پھر وہ ایک دوسرے سے دور ہوجاتے ہیں، نہ وہ کبھی ملتے ہیں نہ انقلاب کی بات کرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں