بلوچستان کے طلباء کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جارہا ہے ۔ پریس کانفرنس

192

بلوچستان کے طلباء جو بلوچستان کے مخصوص نشستون پر ملک کے مختلف یونیورسٹیز میں بغیر کوئی فیس ادا کیے تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو اسی طرح سال میں درجنوں طلبا طویل سفر طے کرکے بلوچستان کے مخصوص نشستوں پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا بھی رخ کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جامعہ حکومتی معاہدہ کے خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان کے غریب طلبا سے فیس وصول کررہی ہے اور بلوچستان کے طلباء پر ہاسٹل کے دروازے بالکل بند کیے جاچکے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار بہاولپور یونیورسٹی کے سراپا احتجاج بلوچ طلباء نے اپنے پریس کانفرنس میں کی ہے۔

طلباء کا پریس کانفرنس میں مزید کہنا ہے کہ انتظامیہ کے اس عمل کے خلاف بلوچستان کے طلبا نے بروز سموار کو احتجاج ریکارڈ کروایا تھا لیکن انتظامیہ کی طرف سے مطالبات نہ سننے کی وجہ سے مجبوراً بلوچستان کے طلباء کو مرکزی دروازے کے سامنے دھرنا دینا پڑا۔

“پچھلے چار دنوں سے بلوچستان کے طلباء یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے ہیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے طلباء کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور نہ ہی انتظامیہ کی طرف سے کسی نمائندے نے آ کر ان کے مطالبات سننے کی زحمت کی۔”

انہوں نے کہا کہ اس سب کے برعکس انتظامیہ کی طرف سے بلوچستان کے طلباء کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جارہا ہے اور ان کو ڈرا اور دھمکا کر احتجاج سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ضلعی انتظامیہ اور بہاولپور پولیس کی طرف سے بھی طلباء کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا گیا جس میں بلوچستان کے طلباء کے ہاسٹلز میں چھاپہ مارکر باقاعدہ ان کو ٹارچر کیا گیا طلباء کی تصویر لیے گئے اور کمروں کی تلاشی لی گئی۔ بہاولپور پولیس کی یہ غیر قانونی ہتھکنڈے یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ انہوں نے کیمپ میں آ کر بلوچستان کے طلباء کے کیمپ کو زبردستی ختم کرنے کی دھمکی دی۔

بلوچ طلبا نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے بلوچستان کے طلباء کو ڈرانے اور ان کی آواز دبانے کی کوششیں یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ کیمپ کے تیسرے دن بلوچستان کے 9 طلباء کو بغیر ان کے موقف سنتے ہوئے یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا اور یونیورسٹی میں ان کے داخلے پر بھی مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ہم نے کیمپ کے پہلے دن ایک پریس کانفرنس کی توسط سے یونیورسٹی انتظامیہ کو مطالبات کے حل کے لیے چار دن کی مہلت دی تھی کہ یونیورسٹی انتظامیہ ہماری بات سن کر ہمارے مطالبات کو حل کرے بصورت دیگر ہم اس احتجاج میں مزید شدت لائیں گے۔ چار دن گزرنے کہ باوجود یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ہمارے مطالبات کے حق میں کسی قسم کی کوئی مثبت ردعمل نہیں آئی۔

طلباء نے کہا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے اس احتجاجی کیمپ کو اب علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں تبدیل کررہے ہیں ہمارے اس علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کی مدت چار دن کی ہوگی اگر چار دنوں میں ہمارے مسائل حل نہیں کیے گئے تو ہم اپنی احتجاج میں مزید شدت لانے کی قوت رکھتے ہیں۔ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے ساتھیوں کو کچھ بھی ہوا تو اسکی ساری ذمہ داری جامعہ انتظامیہ اور واس چانسلر کے سر جاتی ہیں۔