ایران میں پولیس کی حراست میں لڑکی کی ہلاکت پر مختلف علاقوں میں احتجاج جاری ہے جس کے دوران سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
22 سالہ مہسا امینی کو گذشتہ ہفتے تہران میں اسکارف نہ پہننے پر حراست میں لیا گیا تھا اور وہ دوران حراست مبینہ طور پر پولیس تشدد سے ہلاک ہوگئی تھی، فرانسیسی خبررساں ادارے نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کے حوالے سے بتایا کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ہونے والے احتجاج میں اب تک 36 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
مظاہروں کے چلتے حکومت کی جانب سے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس اور موبائل فون سروس بھی معطل کردی گئی ہے ایران کے شہریوں پر فیس بک، ٹیلی گرام، ٹوئٹر اور یوٹیوب استعمال کرنے پر پہلے ہی پابندی عائد ہے-
دوسری جانب ایرانی حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ احتجاج کے دوران 5 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 17 افراد اب تک ہلاک ہوچکے ہیں مگر سینٹر فار ہیومین رائٹس (سی ایچ آر آئی) کے مطابق یہ تعداد زیادہ ہے۔اس ادارے نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ ایران میں احتجاج کے 7 ویں دن حکام نے کم از کم 17 ہلاکتوں کو تسلیم کیا مگر آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 36 تک پہنچ چکی ہے ٹوئٹ میں کہا گیا کہ اس تعداد میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
سی ایچ آر آئی نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کی جانب سے احتجاج پر گولیوں اور آنسو گیس کے ذریعے ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے۔
ایران کے سرکاری خبررساں ادارے کے مطابق مظاہرین کی جانب سے سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جارہا ہے اور پولیس کی گاڑیوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے ایران میں حجاب نہ کرنے پر پولیس نے 22 سالہ مھسا امینی کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس پر وہ کومہ میں چلے جانے کے بعد دوران علاج زندگی کی بازی ہار گئی تھی۔
مہسا امینی کی موت اخلاقی پولیس کی حراست میں کوما میں جانے کے بعد ہوئی، یہ پولیس ایران میں سخت قوانین نافذ کرتی ہیں جن کے تحت خواتین کو اپنے بال ڈھانپنے اور عوامی مقامات پر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہننا لازم ہوتا ہے ان کی موت کے بعد کردستان میں شروع ہونے والے مظاہرے پیر اور منگل کو شمال مغربی ایران کے دیگر صوبوں تک بھی پھیل گئی ہے-