آواران کا تعلیم اور ہمارا ساچان ۔ معراج لعل

285

آواران کا تعلیم اور ہمارا ساچان

تحریر۔ معراج لعل

دی بلوچستان پوسٹ 

اِس جدید دور میں ہر کوئی بخوبی واقف ہوگا کہ تعلیم زندگی کا اہم حصہ ہے، جس کے بغیر زندگی نہ مکمل اور اسے بسر کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

ایک قدیم چینی کہاوت ہے ” اگر تمہارا منصوبہ سال بھر کے لیے ہے تو فصل کاشت کرو، دس سال کے لیے ہے تو درخت اُگاؤ اگر دائمی ہے تو تربیت یافتہ افراد پیدا کرو کیونکہ تعلیم ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے افراد کی تعمیر ممکن ہے۔

تعلیم کی اہمیت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہی گی خواہ وہ مذہبی نوعیت کی ہو یا پھر دنیاوی ہو۔ کیونکہ تعلیم نے ہمیشہ معاشرے کی ترقی اور فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں پرائمری تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہی بچے کی بنیاد بناتی ہے اور ایک بار اگر بنیاد مضبوط پڑگئی تو اس پر عمارت کھڑی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ صوبہ بلوچستان جو کہ وسائل سے مالا لال ہے وہاں کے آواران جیسے ڈسٹرک میں بچے پرائمری اسکول سے محروم ہیں۔ ہاں اگر ایک دو کمرہ نماہ عمارتیں دیکھنے کو ملتے ہیں مگر وہاں نہ کوئی اساتذہ موجود ہیں اور نہ ہی کوئی اچھی سہولت ہے۔

تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے محروم والدین اپنے بچوں کو اپنے آپ سے کوسوں دور رکھ کر شہر بھیجتے ہیں جن کا عمر لگھ بھگ تین سے چار سال ہوتا ہے جس عمر میں بچے اکثر ماں باپ کے پاس رہ کر مہر و محبت حاصل کر کے لاڈ اور پیار سے پرورش پاتے ہیں۔

مگر ضلع آواران کے رہائش پزیر والدین دل پر پتھررکھ کر اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بچپن ہی سے اپنے آپ سے دور تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے شہر منتقل کرتے ہیں بھلے وہ ہمارے دئیے ہوئے لاڈ اور پیار سے محروم رہیں مگر تعلیم سے ہرگز نہیں۔

ایک چار سال کا بچہ جسے ہم سب دوست پیار سے ساچان کہہ کر پکارتے ہیں جس کا تعلق ڈسٹرک آواران سے ہے ۔ جو اس وقت شال میں زیر تعلیم ہے جب بھی اس معصوم پر نظر پڑتی ہے تو مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے، جو میں نے الحمداللّٰہ لاڈ پیار سے اپنے والدین کے ساتھ رہ کر گزارہ تھا۔ اسکول کے لیے دیر سے اٹھنا ، امی جان کی باتوں کو اِس کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکالنا ، ناشتہ اپنی مرضی سے کرنا ، ابو کا مجھے اسکول تک چھوڑنا، اپنے پسند اور نا پسند چیزوں کی خواہش کرنا۔ وہ سب کچھ کیا جو زیازہ تر بچے بچپن میں کرتے ہیں ۔ مگر بدقسمتی سے ساچان میری طرح نہیں ہے۔ نہ وہ اپنا بچپن اپنے والدین کے پاس گزار سکتے ہیں اور نہ ہی بچپنا خواہش کرسکتے ہیں البتہ یہاں بھی سب اپنے ہی ہیں کسی بھی چیز کی کمی محسوس ہونے نہیں دیتے مگر والدین کا پیار اور محبت نایاب ہوتا جو ہر کوئی نہیں دے سکتا۔

آخر کب تک آواران کے بچے اپنے بچن کا قربانی دے کر پڑھائی کے لیے دوسرے شہروں کا رُخ کریں گے، آخر کب اُن کھنڈرات نما کوٹیوں کو اسکول کی شکل دی جائے گی؟

میں درخواست کرتا ہوں کہ ضلع آواران کے جتنے بھی تعلیمی مسائل ہیں اُنہیں حل کریں اور اساتذہ کو سختی سے ڈیوٹی کے لیے پابند کریں تاکہ اِن بچوں کا مستقبل برباد ہونے سے بچ سکے۔