کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے،خدا سے پہلے ۔ محمد خان داؤد

264

کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے،خدا سے پہلے

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کیا درد کے دن گنے جا سکتے ہیں؟ دردکے دن خوشیوں کی ساعتیں اور لمحے نہیں ہو تے کہ گنے بھی جائیں اور ان سے حظ بھی حاصل کیا جائے۔ درد تو لگی دامن اور دل میں آگ ہو تی ہے جو نظر بھی نہیں آتی اور جلاتی بھی رہتی ہے۔ اور اس آگ کے جلنے سے یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ کون تنا جلا ہے۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک ہوتا ہے،پر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ بظاہر پیر چلتے رہتے ہیں۔ پھر بھی ان پیروں میں درد کے دھاگے بندھے ہوتے ہیں۔ کوئی اندازہ نہیں لگا پاتا کہ یہ آنکھیں کتنی جا گی ہیں اور کتنی روئی ہیں؟برستی بارشوں کو ناپا جاسکتا ہے تولا جا سکتا ہے کہ کتنی ملی میٹر برسیں،پر آنکھوں کے برسنے کو کس آلے سے ناپو گے کس آلے سے تولو گے؟تو جہاں درد دامن گیر ہوتا ہے وہاں دنوں کو کیسے گنا جائے؟اور کن صفحات پر اس درد کو درج کیا جائے کہ بلوچ بیٹیاں کتنے دنوں سے ریڈ زوں پر حاکموں کو شکایت سنانے بیٹھی ہیں؟
مشکل ہے۔بہت مشکل ہے۔

ہم ان دنوں کا تو حساب کر ہی نہیں سکتے جن دنوں نے بلوچ ماؤں کی دلوں کو جلاکر رکھ دیا۔جن دنوں میں ان کی نیندیں ماری گئیں۔جن دنوں میں انہوں نے اپنے پہاڑوں کے دامنوں میں کچے گھر چھوڑے۔جن دنوں میں وہ بہت روئیں اور ان کی آنکھوں سے نور چلا گیا۔جن دنوں میں وہ بے چین رہیں اور مر کر جیں اور جی کر مریں!جن دنوں میں پہلے انہوں نے گھر چھوڑے،پھر محلے،پھر شہر اور پھر بلوچستان۔جن دنوں میں وہ رات رات بھر جاگیں اور چاند کے ساتھ ماتم کیا۔جن دنوں میں پہلے ان سے کھانا چھوٹا،پھر نیند چھوٹی اور پھر دل کا قرار!جن دنوں میں ان کے پیر مسافر بنے اور پہلی بار انہوں نے درد سے بھرا سفر کیا۔جن دنوں میں پہلے ان کے پیر دھول آلود ہوئے۔پھر زخمی ہوئے۔پھر درد سے چور ہوئے۔پھر پھٹ پڑے۔جن دنوں میں ان کی آنکھیں تلاش یار میں تھیں اور دل روتا تھا،دل ڈوبتا تھا اور آنکھیں تلاش یار میں تھیں۔جن دنوں بچیاں چھوٹی تھیں اور مسافر ماؤں کا ہاتھ تھامیں سفر میں تھی۔اب تو وہ معصوم بچیاں جوان ہو رہی ہیں اور زندگی ان سے دور ہو رہی ہے۔جن دنوں امید باقی تھی اور آنکھوں کی روشنی بھی۔جن دنوں میں بیٹیوں اور ماؤں نے طویل ترین سفر کیا۔
ان درد یلے دنوں کو کیسے گنا جائے؟

یہ محبت کی ساعتیں تو نہیں تھیں کہ سانسوں کی تیزی اور مہک سے گنا جائے اور لطف سے بدن بھر جائے
یہ درد کا سفر ہے اور درد کا سفر سوائے مقدس صحیفوں،ماؤں کے دوپٹوں کے پلوں اور معصوم بچیوں کے دامن میں ہی درج ہو سکتا ہے کسی اور پیج یا لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نہیں!
اگر میں اس سفر کو اس لیپ ٹاپ کی اسکرین پر درج کروں تو اس اسکرین کو آگ پکڑ لے
اور یہ جل اُٹھے!
ایسے ہی بلوچ ماؤں اور بلوچ بیٹیوں کے دل،دامن آنکھیں اور پیر جل رہے پر انہیں کن صفحات پر درج کیا جائے؟
ہم ان دنوں کی بات ہی نہیں کر رہے۔جن دنوں میں دکھی بلوچ مسافر مائیں اپنی گود میں لیے بیٹیوں و درد بھرا سفر کرتی تھیں۔جن دنوں میں بلوچ مائیں جوان اور بیٹیاں اتنی معصوم اور چھوٹی ہوا کرتی تھیں کہ وہ درد سے آشنا نہ تھیں۔وہ مسافر ماؤں کی جھولیوں اور دامنوں میں ہی سو جایا کرتی تھیں!
پر ہم ان دنوں کی بات کر رہے ہیں جن دنوں میں بہت سی اداس دل والی مائیں منتظر آنکھیں لیے تربت،شال سے لیکر مکران اور کیچ کی گلیوں میں دفن ہوگئیں،بہت سی مائیں درد سے پاگل ہو گئیں اور بہت سی مائیں رو رو کر اپنا دامن گیلا کر کے اندھی ہو چکی ہیں!
اب ہم ڈاکٹر دین بلوچ کی ماں کی بات نہیں پر ڈاکٹر دین بلوچ کی بیٹی سمی کی بات کر رہے ہیں
ماں سے لیکر پو تی کے درد تک کا سفر پھر بھی بیچ میں وہ رہے گا جو درد کا سبب بنا ہوا ہے
اور اس درد کے سبب کو کون لکھے اور کون جانے کہ کتنے دن بیتے؟
پر درد تو اب بھی درد ہے
ویسا کا ویسا
دلوں کو جلاتا،پیروں کو سفر کراتا،آنکھوں کو رلاتا!
تو بہت مشکل ہے درد کے دنوں کو درج کرنا۔
پھر بھی ہم ان دنوں کی بات کریں گے۔جن دنوں میں بلوچ بیٹیاں اپنا دامن واہ کیے گورنر ہاؤس کے سامنے بیٹھی ہیں۔کئی دنوں سے ان کا دامن ہی نہیں پر دل بھی موم بتی کی ماند جل رہا ہے۔
وہ بیٹیاں جو مسافر ہیں۔
جوگی ہیں،
جن کے دوپٹے ہی نہیں پر پیر بھی خاک آلود ہیں۔
جن کی جوتیاں سفر کے درد سے بھری ہوئی ہیں۔
جن کو درد دامن گیر ہوئے ہیں۔
جو اب ایک گولی کی آواز سے ڈر جا تی ہیں
اور تم بہت سی گولیاں پہاڑوں کے دامنوں میں چلاتے ہو
اور پہاڑ سچ دیکھ کر روتے ہیں
بلوچ بیٹیاں اب بہت فکر مند ہیں
وہ چلتی گولیوں اور ان کی آوازوں سے ڈرتی ہیں
ریڈ زون کے مکینوں انہیں سنو
وہ بس اتنا کہنا چاہتی ہیں کہ
”ہمارے گمشدہ باباؤں کو
پہاڑوں کے دامنوں میں
رات کے آخری پہروں میں
مقتولین نہ بنانا
وہ جو بہت کچھ نہیں کہنا چاہتیں،وہ بس اتنا کہنا چاہتی ہیں کہ
”کاٹ ہی دیں گے قیامت کا اک دن اور سہی
دن گزارے ہیں محبت میں قضا سے پہلے
دو گھڑی کے لیے میزان عدالت ٹھہرے
کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے!“
سن رہے ہو زمینی خداؤ؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں