بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں زیارت واقعے کے بعد گورنر ہاؤس کے سامنے ریڈ زون میں جاری بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے کو آج ایک مہینہ مکمل ہو گیا، مطالبات کی عدم منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے مطالبات کی منظوری اور عمل درآمد کے لئے احتجاج کو وسعت دینے کا عندیہ دے دیا۔
دھرنے میں آج معروف قانون دان ایڈووکیٹ علی احمد کرد سمیت نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر رحمت صالح، مرکزی ترجمان اسلم بلوچ اور دیگر صوبائی رہنماؤں نے دھرنے پہ آ کر لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہم جبری گمشدگیوں کے سخت خلاف ہیں، ہماری جدوجہد کا محور ہے کہ ملک میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے، تمام جبری لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے اور بلوچ نسل کشی بند کی جائے –
اس موقع پر وی بی ایم پی کے جنرل سیکرٹری سمی دین بلوچ نے دھرنے کا دورہ کرنے اور اظہارِ یکجہتی کرنے پر تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم اپنے جائز آئینی مطالبات کی منظوری کیلئے یہاں پچھلے ایک مہینے سے بیٹھے ہیں لیکن اب تک ہمیں سنجیدہ نہیں لیا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا افسوس کا مقام ہے کہ ملکی خبر رساں اور انسانی حقوق کے اداروں کے نمائندوں کے نظروں سے بھی ہمارا دھرنا اوجھل ہے جو ہمیں نظر انداز کرتے آ رہے ہیں –
لواحقین نے کہا کہ ہمارے مطالبات سادہ ہیں کہ زیر حراست افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کا تحقیقات صاف شفاف طریقے سے کرکے آئندہ زیر حراست لاپتہ افراد کو قتل نہ کرنے کی یقین دہانی اور جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کو منظر عام پر لا کر عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔
انکا کہنا تھا کہ ہم گذشتہ ایک مہینے سے یہاں دن رات بارش میں سراپا احتجاج ہیں حکومت ہمارے لوگوں کو منظر عام پر لانے کے بجائے مزید نوجوانوں کو لاپتہ کررہا ہے