کتاب دشمنی کیوں
تحریر: گل حسن احتشام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فرارے اپنی مشہور کتاب pedagoggy of the oppresed میں لکھتا ہے کہ کیسے سوسائٹی میں دو گروہ طاقتور اور محکوم تشکیل پاتے ہیں اور طاقتور کیسے نظام تقسیم کو استحصالی سسٹم اور اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور کیسے لوگوں کو غلام بنا کر رکھتا ہے۔ چونکہ استحصالی طبقہ اپنی تعداد میں قلیل ہوتا ہے۔ تو اپنی تعداد سے کئی گناہ زیادہ لوگوں پر حکومت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو متحد نہ ہونے دیا جاٸے اور ہر سطح پر بانٹ دیا جائے۔ اور ان کو کتابی شعور نہ دیا جاٸے بلکہ جتنا ہوسکے ان کو کتابوں سے دور رکھا جائے۔
بدقسمتی سے ریاست بھی بلوچ کی غلامی کو برقرار رکھنے کے لیے یہی عمل دہراتا آ رہا ہے، اور بلوچ نے غلامی سے چھٹکارا پانے کے لیے جب کتابوں کا سہارا لیا تو کتابوں پر بھی پابندی لگائی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محکوم انسان کا سب سے بہترین دوست کتاب ہی ہے، جن لوگوں نے کتاب کی دوستی کو قبول نہیں کیا تاریخ نے انہیں بدقسمت و خوار لکھا۔
لیکن جن لوگوں اور قوموں نے کتاب کی اہمیت پہچان لی وہ قومیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، یاد رکھیں وہی قومیں نجات و عروج پاتی ہیں جو کتاب کو اپنا سچا ساتھی تسلیم کرتے ہیں۔ وہی کتاب ہوتی ہے آپ کو آپ کا حق لینے اور اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد کے لیے ایک حوصلہ ہمت و نظریہ فراہم کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں ہر روز کتاب پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔
آج ہی بلوچستان یونیورسٹی میں ایک بک اسٹال لگایا گیا جس پر پولیس نے طلباء پر لاٹھی چارج کی اور کتابوں کو روڈوں پر پھینکا جس پر بلوچ طلباء نے لاٹھی چارج کے باوجود بک اسٹال کو جاری رکھا۔ اگر آج آپ زحمت کرکے تاریخ کی جانب ایک قدم رکھ کر دیکھیں تو جن قوموں نے کتاب دوستی سے انکار کیا ان کی ڈھونڈنے سے بھی قبریں تک نہیں ملیں گے۔ اگر جب بھی آپ کسی کو غلام بنانا چاہتے ہیں تو اسے کتابوں سے دور رکھو وہ خود بہ خود آپ کا غلام بن جاٸے گا اور یہی عمل یہ ریاست اور بلوچ سردار بلوچ کے ساتھ 74 سالوں سے کرتے آرہے ہیں۔
اور دوسری طرف کچھ ایسے لوگ ہمارے بیچ موجود ہیں جو خود کو کتاب دوستی کا ڈھونگ رچا کر صادق و جعفر جیسے دجالوں کے اشاروں پر کتابوں سے دوستی رکھتے ہیں اور ان کا قلم صرف یک طرفہ ہوتا ہے جو روز ہمارے ہاں سادہ عوام کو گمراہ کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے کتاب دوستی اور حق کی آواز بلند کیا کامیابی ان کی مقدر بن گئی یہ قوم یہ سرخ زمین ہمیں پکار رہی ہے اور ہمیں جن کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے وہ خود ہمیں آوازیں دے کر پکار رہی ہے۔
مگر بدقسمتی سے ہمارے اپنے ہی ہمارے دشمن بنے پھرتے ہیں اور انہیں اپنوں اور ظالم سے چھٹکارا پانے کے لیے ہم نے کتابوں کا انتخاب کیا اور ہمیشہ سے ہم انہی کتابوں سے وفاداری نبھائیں گے۔
آپ خود اندازہ لگائیں جن کتابوں کو روڈ پر رکھنے پر مجبور کیا، طلباء پر لاٹھی چارج کی یہ کتابوں کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ اور یہ کتابیں خود جاکر مظلوم کے ہاتھ لگ کر ظالم کو نیست و نابود کردیں گے۔
یہ ظالم ہمیں جھوٹی تاریخیں پڑھا پڑھا کر ہمیں حق و سچ پر مبنی تاریخ سے محروم کرنا چاہتا ہے یہ ریاست نہیں چاہتا بلوچ ترقی کی راہ پر گامزن رہیں اس لیے ریاست اور اس کے پالے ہوئے لوگ روز کتابوں کی تذلیل کر کے روڈوں پر پھینکتے ہیں اور کتابوں پر پابندیاں عائد کی جاتی ہے۔
کتاب اور علم کی روشنی کو آپ قطعاً گولیوں اور بندوقوں کے زور پر نہیں کرسکتے۔ معاشرے میں لائبریری زہنی اسپتال کی حیثیت رکھتی ہے اور پرسکون ماحول میں بیٹھ کر کتاب پڑھنا غنیمت ہے۔
یقین کی جیے دنیا میں کوئی موسیقی کتاب کے اوراق کی پھڑپھڑاہٹ سے زیادہ سریلی اور خوب صورت نہیں ہو سکتی۔ کتاب اور انسان کا رشتہ آپس میں اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر۔
نشہ تو اور بہت قسم کا ہوتا ہو گا لیکن کتاب بینی یعنی کتابوں کے مطالعے کا نشہ بھی اپنا ایک الگ وجود رکھتا ہے اور اس “نشے” میں مبتلا شخص جب تک دن کے کسی حصے یا رات سونے سے پہلے مطالعہ نا کر لے اس کو نیند نہیں آتی۔
آج یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ردانقلابیوں نے کتاب دشمنی کو مول لیا ہے اور آپ کا جد و جہد یہ ثابت کرتا ہے کہ کون کتاب دوست تنظیم ہے اور کون کتاب دشمن، روشنی کو للکار رہی ہے تاریکی کو وہ صبح دور نہیں جب نوید بامسار طلوع ہوگا۔ اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم ہمیشہ کے لئے ان کتابوں کے اندر تاریخ بن کر رہیں۔ یا ہمیشہ کے لیے تاریخ سے گمنام رہیں۔
درے نن نا سے میر ءِ تغ افک
اسٹ خلق اٹ کتاب بشخنگے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں