کتاب: انیمل فارم | تبصرہ: بیبرگ بلوچ

657

کتاب۔ انیمل فارم
‏‎مصنف۔ جارج آرویل

‏‎تبصرہ۔ بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏‎برطانوی صحافی اور مشہور مصنف جارج آرویل کا کتاب انیمل فارم Animal Farm دوسری جنگ عظیم کے دوران 1945 میں شائع ہوئی، جس کا شمار دنیا کے سو بہترین ناولوں میں ہوتا ہے۔

‏‎انیمل فارم دراصل ان واقعات کی وضاحت کرتا ہے جن کے سبب 1917 کو روسی انقلاب سامنے آیا تھا اور پھر سویت یونین میں اسٹالن کا دور آگیا تھا، جس میں جارج آرویل اسٹالن اور اس کی اکلوتی پارٹی کی آمریت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔

‏‎جارج اورویل کا مشہور ناول Animal farm ایک ایسی خیالی دنیا کی کہانی ہے۔ جس کے سارے کردار جانور ہیں جو کہ انسانوں کی طرح بولتے ہیں، انسانوں کی طرح سوچتے ہیں اور انسانوں کی طرح اپنے ارادوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

‏‎یہ ناول دراصل ایک ظالم، شرابی، سخت مزاج اور نااہل زمیندار مسٹر جونز (Mr Jones) کے کھیتوں کے جانوروں کی کہانی ہے جو ان کا خیال نہیں رکھتا، ان سے سخت کام لیتا ہے اور ہر وقت ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا ہے۔

‏‎ اس Minor farm میں Old major نامی ایک بوڑھا سور (Pig) رہتا ہے، جوکہ تمام جانوروں کا ایک میٹنگ بلاتا ہے، فارم میں موجود تمام جانور جن میں سور ،گھوڑے، گھوڑیاں ،بلی، کتے، گدھے، مرغیاں، پرندے اور دیگر بہت سارے جانور اکھٹے ہوجاتے ہیں، جہاں عمر رسیدہ بوڑھا سور (Old major) انہیں بتاتا ہے کہ رات کو اس نے ایک خوفناک خواب دیکھا کہ اس کی موت لمحہ بہ لمحہ قریب آرہی ہے اور یہ کہ آنے والے وقتوں میں ہماری نسلیں بھی ایسے ہی مظالم سے پستی رہے گی، انسان جانوروں کا بہت زیادہ استحصال کریں گے اور انسانوں کے ہاتھوں جانوروں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار ہوجائے گی۔

‏‎بوڑھا میجر تمام جانوروں کے سامنے جزباتی انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ غلامی میں اپنی زندگی گزار کر بوڑھا ہوچکا ہے، آپ نوجوان اپنی جنگ لڑکر انسانوں کی غلامی اور ظلم سے نجات حاصل کرو۔

‏‎ بوڑھا میجر انہیں مزید بتاتا ہے کہ اس کے پاس ایک ایسے انگلستان کا نظریہ ہے کہ جہاں کے تمام جانور مل کر ایک ایسی آئیڈیل زندگی گزار سکیں۔ جوکہ انسانوں کی مداخلت سے پاک ہو اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے ۔ جب تمام جانور مل کر اس کے لئے جدوجہد کریں۔
‏‎بوڑھے میجر کی اس تقریر سے جانوروں میں انسانوں کے خلاف سخت نفرت اور بغاوت کا جزبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ سب مل کر جانوروں کی اتحاد کا ترانہ گاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ کیوں نا مسٹر جونز کے خلاف علم بغاوت بلند کریں۔

‏‎اس تقریر کے تین دن بعد بوڑھا میجر تو مر جاتا ہے مگر وہ جانوروں کو ایک ظالم کے خلاف شعور دے جاتا ہے۔

‏‎فارم میں موجود تمام جانوروں میں سب سے ذہین اور باشعور جانور سور ہوتے ہیں جوکہ اپنی ذھانت کے بل بوتے پر تمام جانوروں کے قائد بن جاتے ہیں اور انقلاب کے لیئے کام شروع کر دیتے ہیں۔

‏‎کچھ دنوں بعد رات کے وقت Minor farm کا مالک مسٹر جونز سخت شراب کی نشے میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ فارم کے جانوروں کے بڑے سے باڑے کا دروازہ بند کرنا بھول کر جانوروں کو چارہ نہیں دیتا اور اپنے بستر میں شراب کے نشے میں دھت پڑا سوجاتا ہے۔ یوں تمام جانور بغاوت کرکے مسٹر جونز کے گھر پر حملہ کرتے ہیں، مسٹر جونز اور اس کے بیوی اور دوسرے نوکر جانوروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور گھر چھوڑ کر وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ یوں جانور فارم پر قبضہ کرکے وہاں کا انتظام سنبھالتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سنوبال اور نپولین جانوروں کے حکمران بن جاتے ہیں۔

‏‎ سوروں میں سنوبال اور نپولین انتہائی نمایاں شخصتیں ہوتی ہیں جوکہ جانوروں کے خاطر سات نکات پر مشتمل ایک آئین بناکر اس کانام Animalism رکھ دیتے ہیں اور ساتھ ہی Minor farm کا نام بدل کر Animal farm رکھ دیا جاتا ہے۔

‏‎اس آئین کے سات نکات کچھ یوں ہوتے ہیں.

‏1.Two legs(human) is enemy.
‏‎دو ٹانگوں والا دشمن تصور کیا جاے گا۔
‏2.Four legs or, has wings, is a friend.
‏‎ہر چار ٹانگوں والا جاندار یا وہ جس کے پر ہونگے ، دوست سمجھا جاے گا۔
‏3. No animal wear clothes.
‏‎کوئی جانور لباس نہیں پہنے گا ۔
‏4. No animal sleep in a bed.
‏‎ کوئی جانور بستر پر نہیں سوئے گا۔
‏5.No animal shall drink alcohol.
‏‎ کوئی جانور شراب نہیں پیئے گا۔

‏6.No animal shall kill any other animal.
‏‎کوئی جانور کسی دوسرے جانور کو قتل نہیں کرے گا۔
‏7. All animals are equal.
‏‎تمام جانوروں کے حقوق مساوی ہونگے۔

‏‎سنوبال اور نپولین میں بہت فرق ہوتا ہے۔ سنوبال انتہائی مثبت سوچ کا مالک اور اپنے انقلابی نظریات کے ساتھ مخلص اور ہر وقت جانوروں کی فلاح و بہبود اور ان میں تعلیم رائج کرنے کے منصوبوں پر غور و فکر کرتا ہے اور انہیں قابل عمل بناتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس نپولین چالاک ، موقع پرست، خود غرض اور منفی سوچ کا مالک ہوتا ہے۔ ایک دن نوجوان سور Snowball جانوروں کا ایک اہم میٹنگ بلاتا ہے جس میں سب جانوروں کو بتاتا کہ ہمیں فارم میں بجلی پیدا کرنے والی چکی بنانا چائیے تاکہ ہمیں بہت سے سہولیات موثر ہوں اور مزید ترقی کرسکیں، یوں تمام جانوروں کو یہ idea بہت پسند آتا ہے جبکہ Napoleon میٹنگ میں کھڑے ہوکر Snowball پر الزام لگاکر اسے Mr jones کا جاسوس کہتے ہوئے غدار قرار دیتا ہے اور مزید کہتا ہے کہ چکی بنانے کا اصل idea میرا تھا، یوں دونوں میں بہت اختلاف پیدا ہو جاتا ہے، تمام جانور دو دھڑوں میں بٹ جاتے ہیں اور ان میں تصادم کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی وقت نپولین سیٹھی بجاتا ہے اور نو خوفناک قسم کے شکاری کتے بھاگتے ہوے آکر سنوبال پر حملہ کردیتے ہیں اور اسے فارم سے بھگاتے ہیں۔ ان کتوں کو نپولین نے اسی دن کے لئے خفیہ طریقے سے پال رکھا ہوتا ہے اور اس کے دل میں شروع دن سے کدورت موجود ہوتی ہے۔

‏‎اب نپولین تمام جانوروں کا حاکم بن جاتا ہے اور بنائے گئے اپنے سات نکاتی آئین کی خود ہی دھجیاں اڑاتا ہے۔

‏‎آئین میں یہ درج ہوتا ہے کہ ایک جانور دوسرے جانور کا قتل نہیں کرے گا جبکہ وہ اپنے مخالفین اور ظلم کے خلاف آواز بند کرنے والے کو غداری اور سزاے موت کے نام پر اپنے خوفناک کتوں سے ہلاک کرواتا ہے۔

‏‎آئین میں یہ نکتہ ہوتا ہے کہ ہر دو ٹانگوں والے سے نفرت کی جائے گی مگر نپولین ارد گرد کے زمینداروں سے دوستی اور تجارت کرکے ان کے لئے دعوتیں کرتا ہے۔آئین میں شراب نوشی اور بستر پر سونے سے منع کیا جاتا ہے ۔ جبکہ نپولین اور باقی سور آرام دہ پلنگ پر سوتے ہیں ہر وقت سخت نشے کی حالت میں ہوتے ہیں اور انتہائی عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔

‏‎آئین میں انتہائی اہم نکتہ کہ تمام جانوروں کے حقوق یکساں ہونگے، لیکن نپولین اسے نہیں مانتا ہے ، وہ اس کے لیئے تمام آئین کو مسترد کرتا ہے اور اب اس کا صرف ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ تمام جانوروں کے حقوق برابر ہیں لیکن بعض دوسروں پر برتر ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ نپولین کی ہر بات درست ہوتی ہے۔

‏‎یوں تمام جانور غربت اور ذلت کی زندگی گزارتے ہیں ، وہ بھوک کے ہاتھوں مرتے ہیں اور عمر بھر کے لئے پچھتاتے ہیں کہ کاش وہ مسٹر جونز کے خلاف انقلاب نہ لاتے۔

‏‎اس ناول کو پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہوگیا ہے کہ کوئی بھی جدوجہد یا کسی مقصد کے لئِے جدوجہد کرنا اور اس سے امید رکھنا نقصان دہ یا فضول عمل نہیں ہوتا۔ بلکہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ جب بھی کوئی کسی اچھے مقصد کے لئے جدوجہد کرکے ایک اچھا نظام لاتا ہے تو پھر بد قسمتی سے چند غدار اور موقع پرست اس مقصد یا نظام کو آئی جیک کرکے لوگوں پر مسلط ہوجاتے ہیں اور پھر تمام لوگوں کے فائدے صرف ایک آمر کی ہوکر رہ جاتی ہے اس طرح وہ برابری کی بجائے صرف اپنے مفادات کا خیال رکھتا ہے اور معاشرہ طبقات میں تقسیم ہوجاتا ہے جہاں کمزوروں پر زمین تنگ کر دیا جاتا ہے، ظلم اور تشدد کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے، جہاں لوگوں سے فردی آذادی چھین لیا جاتا ہے، عام اور خاص کی تخصیص شروع ہوجاتی ہے۔ اس میں عظیم شخص کا کوئی قصور نہیں ہوتا جو دوسروں کی بہتری کے لئے سوچتا ہے اور انہیں ایک مثبت اور انقلابی نظریہ دیتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں