کتابیں بارود بن گئی ہیں
تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دور حاضر میں قلم اور کتابوں سے تعلق جوڑنا ایک مہلک ہتھیار کی مانند ہے، جو کسی بھی وقت تمہاری جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔
لالا فہیم کا تعلق بھی کتابوں سے تھا، شاید ان مہلک اور دھماکہ خیز کتابوں کے جرم کی پاداش میں دن دیہاڑے سر ےعام لوگوں کے سامنے گرفتار کرکے انہیں لاپتہ کر دیا گیا۔
لالا کا ایک جرم یہ ہوسکتا ہے کہ وہ پیدائشی طور پر ایک بلوچ ہے، اور بلوچ ہونا بھی جرم ہے، دوسرا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ کتابیں بیچتا ہے، وہ علم و ادب پبلیکشن کے منیجر بھی ہیں جو بلوچی، اردو اور دیگر کتابیں چھاپتا اور شائع کرتا ہے۔
کتابیں پڑھنے سے شعور بیدار ہوتا ہے، حق اور باطل، کھرے اور کھوٹے میں فرق واضح ہوتا ہے، چور اور ڈاکوؤں کے پیشے کو خطرات لاحق ہوسکتا ہے، سیاسی مداریوں، کٹھ پتلیوں، میر اور وڈیروں کی معتبری کی تعمیر کی ہوئی جھوٹی عمارت جو مظلوم اور محکوموں کی سرخ لہو سے تعمیر کیا گیا ہے، مسمار ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے کتابوں نے آج کل مہلک ہتھیاروں کا روپ اختیار کر لیا ہے، اس لئے کتابوں سے تعلق جوڑنا بغاوت ہے اور بغاوت جرم ہے۔ لالا فہیم کتابوں کی ہتھیار سے لیس ایک باغی ہے، اسلئے مقتدرہ قوتوں کو کتابوں سے خطرات لاحق ہیں۔
ویسے تو جنگ زدہ خطے میں زہنی اور نفسْیاتی امراض بڑھ جاتے ہیں، شاید اس وبا نے بلوچستان کے ساتھ ساتھ سندھ کو بھی جھنجھوڑ دیا ہے، نفسْیاتی بیماری مختلف اقسام کے ہوتے ہیں، جیسا کہ ڈیپریشن، شائیزوفرینیا، او سی ڈی، بائی پولر ڈِس آرڈر وغیرہ وغیرہ، لیکن ان امراض میں علامات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مقتدرہ قوتوں کو شائیزوفرینیا ہے، شائیزوفرینیا میں ایک علامت خاص ہے جن کو Hellucination کہا جاتا ہے، ان سے ہوتا یہ ہے کہ ان سے زہن میں ایسے خیالات، تصورات اور ابہام ابھرتے ہیں جنکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، مریض کے زہن اور خیال میں ایک خاکہ بن جائے تو وہ اسکو حقیقت سمجھتا ہے کہ وہ مادی طور پر انکے سامنے موجود ہے جس طرح حقیقی اور معنوی شکل میں موجود ہوتا ہے، لیکن یہ صرف انکے وہم اور گمان ہے۔
اسی طرح مقتدرہ قوتیں اب مکمل طور ابہام میں مبتلا ہیں جسطرح شیزوفرینا کے مریض کی ہو، اب انکے آگے کتاب بالکل بارود ہیں، چاہے کتاب علم و ادبی کیوں ہی نہ ہو، بس کتابوں سے ڈر لگتا ہے، کتابیں پڑھنے والوں سے ڈر لگتا ہے، کتابیں چھاپنے اور شائع کرنے والوں سے خوف و خطر محسوس ہوتا ہے، اگر بخوبی اندازہ لگایا جائے تو یہ مریض ہونے کے ساتھ ساتھ ایک طرح کی شکست ہے۔
کیونکہ آج علم کے پیاس کی شدت کو بلوچ نوجْوانوں نے گہرائی سے محسوس کی ہے، آج ہر ایک بلوچ نوجْوان کے ساتھ ایک نہ ایک کتاب ضرور ہوتا ہے، اب بلوچ اور کتاب لازم و ملزوم بن چکے ہیں، اب ان قوتوں کے سامنے ہر ایک بلوچ نوجْوان کتابوں سے مسلح ہے، ان کے رہن سہن، اٹھنا بیٹھنا، گپ شپ بھی کتابوں کے مختلف موضوعات سے شروع ہوکر مختلف مسائل کو زیر بحث لاتے ہوئے انکے حل تلاش کرنے کی جستجو میں گزرتے ہیں، اب وہ ایک طرح کی تجسس میں مبتلا ہیں، ہر معاملے اور انکے اسباب کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، کتابوں نے نوجْوانوں کو ایک طرح کا سْیاسی میڈیکل ڈاکٹر بنایا ہے جو مسائل کا باریک بینی سے تشیخص کرنا جانتے ہیں اسلئے معاشرے میں پھلنے پھولنے والے طفیلیوں کو ان سے خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔
یقیناََ لالا ایک حد تک کامیاب ہو چکا ہے، انہوں نے کتاب کلچر کو فروغ دی ہے، مختلف کتابوں سے نوجْوانوں کو آشنا کرایا، اب لالا عالمگیر انسان کا روپ دھار چکا ہے، کیونکہ انکے ساتھی آپ کو اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، لائبریریز اور مختلف تعلیمی اداروں میں ملتے ہیں، اب ہر ایک گاؤں، گلی گلی، کوچہ کوچہ میں کتابوں سے مسلح بردار بلوچ نوجْوان ضرور آپ کو ملتا ہے۔ یہ کارروان بڑھتا چلا جائے گا، اب انکو روکنا احمقوں کی جنت میں رہ کر خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں