پیغام براۓ پانی میں ڈُبکیاں کھاتی عام عوام ۔ انور بلوچ

182

پیغام براۓ پانی میں ڈُبکیاں کھاتی عام عوام

تحریر انور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

موجودہ حالات سے ہرشخص آگاہ ہے کہ آپ عوام کا جو کُل اثاثہ تھا پانی کی تیز لہروں کی نظر ہوگیا، چاردیواری مسمار ہوگئے، سر سے چھت چھن گئی مال مویشی گھر کی ساری جمع پونجی پانی کی نظر ہوگئیں.
اب یہ سلسلہ بھی تھمے گا پانی کی لہریں بھی ماند پڑجاٸیں گی. ان دس دنوں میں آپ عوام کو بطور بھیک چند نوالے بھی کھانے کو ملیں گے.
اگر گھر کا کوٸ فرد اپنی جان کی بازی ہار بھی گیا تو صرف پانی ہی کو قاتل نہ سمجھنا، گناہوں کے سبب ہم پر آفت کا ڈھونگ بھی نہ رچانا،
اپنے آپ سے بھی چند سوال کرنا خود کے ضمیر کوبھی جھنجھوڑنا.
یہ آفتیں کیا ہے کیسے آتی ہیں؟
بارشیں اگر رحمت ہیں تو زحمت بھی ہیں.
اب صرف خود کو گنہگار نہ کہنا.
انٹرنیٹ کی دنیا سے بھی سوال کرلینا Google ترانے اور گانے سرچ کرنے کے علاوہ بھی انسان کی رہنماٸ کررہا ہے.
‏Google
سے سوال کرنا جنگلات کے کٹاٶ کے کیا نقصانات ہیں؟
ان نقصانات کا ازالہ کس نے کرنا ہے؟
سرکار کیا کررہی ہے؟ کون ہے سرکار بلوچستان میں موجود وساٸل کو بھی زہن نشین رکھنا.
اگر بلوچستان کے وساٸل کا چوتھا حصہ بھی بلوچستان کو دیا جاتا تو کیا آپ کے حالات ایسے ہوتے؟ آپ کی ایک دو بکریاں اور ٹوٹی پھوٹی چار دیواری اثاثہ ہوتی؟
آپ عوام ایک امیر صوبے کے مالک ہیں.
آپ کے وطن آپ کی سرزمین میں سیندک، گیس کوٸلہ، تیل ، پٹرول کیا کچھ نہیں ہے آپ کی سرزمین جس کے آپ مالک ہیں.
اور آپ کو ملنے والا حصہ بادشاہ کے دسترخوان پر بچی کھچی ہڈیاں جو دسترخوان صاف کرنے کے بعد کتوں کے آگے پھینک دی جاتی ہیں.
آپ کے ساتھ جو ہوتا آرہا ہے یا جو ہورہا ہے گناہوں اور جہالت کی عینک اتار کر خود سے سوال کرنا.
کہ ہر آفت آپ پر ہی کیوں؟
مظلوم و محکوم آپ کیوں؟ اڑے آپ تو امیر صوبے کے مالک ہیں.
سرداروں نوابوں اور میر معتبروں کا ذکر بھی لازمی ہےکہ انکا لوٹ کھسوٹ کا بازار کیسے چلتا ہے؟
سیاسی جماعتوں کو کیسے زیر سایہ رکھ کر آپ عام عوام کا ہی استحصال کیا جاتا ہے؟
آپ عوام کے بنیادی حقوق کیا ہیں؟
آپ کا ستحصالی گروہ کون ہے؟
کیاوجہ ہے کہ قدرتی رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ صرف آپ کی اس بات سے کہ ہمارے گناہ ہیں.
معاشرے کا ہر فرد مسجد کے ملاَ سے لے کر ہر گھر کا ایک عالم یہ فتوٸ ضرور دیتا ہے کہ ہمارے گناہ ہیں……
گناہ کی پہچان کچھ اور ہے تمہیں پس دیوار رکھاجارہاہے.
جنت کے لالچ میں تمہاری اس دنیا کو جہنم بنانے والا تمہارے اردگرد کا گنہگاروں کو تمہیں پہچاننا ہوگا.
تمہیں جیناہوگا، اپنے لیے نہیں تو اپنی آنے والی نسلوں کیلیے، اگر تم یونہی مرنے پے آمادہ رہے یہ سلسلہ آنے والی پشتوں تک دوڑے گا.
ہر دور میں انسان آج کی طرح آپ ہی کی مرنے والی موت مرے گا جیسے حالیہ پانی میں تیرتی اور مٹی میں دھنسی لاشیں.
یہ کوٸ پہلا واقعہ نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اب کی بار شاید آپ عام عوام کے گناہ زیادہ تھے.
لیکن ان گناہوں کی سزا کا سلسلہ تو آپ عوام کیلیے نیا نہیں ہے آپ کے بچپن سے آج کے اس لمحہ تک کونسا ایسا خونخوار تہوار جو ہر سال پیش نہ آیا ہو.
ہسپتال نہ ہونے کے سبب وقت پر ایمرجنسی ادویات فراہم نہ ہونے پر مرنے والے کی زندگی کو ہم نے ہی مختصر سمجھ رکھا ہے.
ایک ماں جو دوران زچگی ہسپتال نہ پہنچنے کے سبب جان کی بازی ہارجاتی ہے.
اس کے مرنے کا وقت خدا نے نہیں مقرر کیا ہوتا کیونکہ خدا واحد لا شریک ہے وہ اپنے بندے کو کیونکر تکلیف میں دیکھنا چاہے گا! خدا تعالی وقت مقرر کردیتا ہے جب خدا تعالی دیکھتا ہے کہ میرا بندہ اب میری ہی بناٸ دنیا کے جھوٹے خداٶں کے مظالم سہہ سہہ کرتھک چکا ہے اب وہ اس ازیت میں ہے کہ اس میں جینے کا تصور ہی پیدا نہیں ہوسکتا تو خدا تعالی اپنے بندے کی روح قبض کروالیتا ہے.

اپنے اردگرد کینسر جیسے موزی امراض کے بارے میں آگاہی حاصل کریں یہ تحفہ آپ کو خدا کی طرف سے عطیہ کردہ ہے یا آپ کے اردگرد کی Nature کو ایفیکٹ کرکے آپ کو انسان کے ہاتھوں موت کا تحفہ دیا گیا ہے؟

اس بار کی طرح ہر بار ایسا ہوتا رہے گا یہ سلسلہ چلتا رہے گا کیونکہ استحصال کیاجارہاہے.

اس کیلیے یہ لازمی نہیں کتنے مرے یہ لازمی ہے کہ کون مرا…؟
اگر آپ کے مرنے پے خاموشی ہے تو آپ کو خاموش نہیں رہنا چاہیے؟

پانی میں ڈبکیاں کھاتا انسانی ڈھانچہ جب تک اس میں روح ہوتی ہے وہ اپنے اپ کو بچانے کیلیے چیختا ہے روتا ہے بچانے کی استدعا کرتا ہے.
اگر آپ حالیہ دنوں اس آفت سے محفوظ رہے تو آپ نے جینا ہے….
خاموش تماشاٸ جینے سے بہتر ہے خود کو پانی کی لہروں کی نظر کردو آپ کو بھی خدا قبول کرلے گا اپنے پاس بلا لےگا.

آپ نے اگر نئی زندگی پاٸ ہے تو اس کے جینے کے انداز بدلو اپنا رہنما بدلو آپنا قاٸدہ بدلو اپنی جہنم بدلو اپنی یہ دنیا بدلو اپنے لیے نا سہی اپنی آنے والی نسلوں کو ایک ایسا ملک وطن معاشرہ دے کر جاٶ کہ وہ اِس دنیا کو آپ کی طرف سے عطیہ کردہ جنت کہیں….


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں