پنجاب سے کیا گِلہ شکوہ
تحریر؛ سراج نور
دی بلوچستان پوسٹ
تین سال پنجاب میں رہنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ پنجاب تعلیم یافتہ لوگوں سے بھری پڑی ہے لیکن وہاں کے لوگ شعور سے عاری ہیں، مجھے پتہ نہیں اسکی وجہ امن ہے یا غفلت، یا بینکنگ ایجوکیشن سسٹم یا طلباء تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ شعور سے اُتنے دور ہیں کہ اب اگر وہ شعور کی طرف گامزن ہونے کی کوشش کریں شاید ان لوگوں کو کئی برس لگ جائے کیونکہ پنجاب کی اس نسل کے پاس تعلیم ہے، لیکن تعلیم اور شعور میں دن رات کا فرق ہے اس فرق کو ختم کرنے کیلئے لوگوں کے اندر قومی جذبہ ہونا چاہئے لیکن پنجاب کے لوگوں میں قومی جذبہ نہیں ہے، ہاں البتہ فوجی جذبہ ہے، پنجاب میں patriotic شاید آپ کو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں مل جائیں لیکن وہاں نیشنلسٹ کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی۔
میں نے پنجاب میں بہت سے ایسے پروگرامز جوائن کئے جہاں اس عہد کے پروفیسر لیکچرار وغیرہ ہوتے تھے، میں نے اکثر ان پروفیسر ماؤں کو دیکھا وہ اپنے بچوں سے انگلش میں بات کرتے تھے اور پنجابی کبھی کبھار، کچھ میرے جیسے دیہاتی لوگ پنجابی میں بات کرتے تھے، لیکن المیہ یہ ہے کہ پنجاب میں زیادہ تر لوگ شہروں میں رہتے ہیں اور دیہاتوں میں وہ لوگ رہتے ہیں جو کسی جاگیردار کی جاگیر بن چُکے ہیں۔
جب سرگودھا یونیورسٹی میں ایک دن پنجابی کلچر ڈے منایا گیا تو پہلے اسٹیج پد کوئی اردو زبان میں بات کررہا تھا پتہ نہیں پھر کہاں سے کسی زبان دوست قوم دوست اِنسان نے کہا یار پنجابی کلچر ڈے ہے تو پنجابی میں بات کرو تو صحیح ہوگا۔
جس طرح کُردستان کے ڈاکٹر جواد میلا نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر کُرد آج ایک قوم کی حیثیت سے دُنیا میں وجود رکھتی ہے تو اسکی بڑی وجہ اور اسکی کریڈٹ کُرد ماؤں اور کردستان کی پہاڑوں کو جاتا ہے۔
اس سے یہ اخذ کیا جاتا ھیکہ اگر کُرد ماؤں نے اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر کسی قابض کی زبان کلچر کو اپناتے تو آج شاید کُردستان کی جنگ آزادی کمزور پڑ جاتی شاید آج عبداللّہ اوژلاں جیسے لوگ پیدا نہیں ہوتے آج ترکی کی جیلوں میں بیٹھ کر کُرد نوجوان جدوجہد نہیں کرتے یہ ان ماؤں کے بدولت ہے کہ کرُدستان کے لوگوں کو اس سرزمین کی پہاڑوں سے محبت کرنا سکھایا ان کو یہ درس دیا گیا کہ یہ پہاڑیں یہ سرزمین ماں ہوتی ہے اور ان کُرد بچوں کو اتنی محبت ہوچکی ہے جتنی محبت وہ اپنے ماؤں سے کرتے ہیں ، لیکن پنجاب کی تعلیم یافتہ ماں قابض برطانیہ کے زبان اور کلچر سے اتنے متاثر ہوچُکے ہیں کہ انہوں نے اپنے زبان اپنے کلچر کو اپنے پاؤں تلے روند دیا ہے۔
اور ہم بلوچ اور پشتوں یہ گلہ کررہے ہیں کہ پنجاب کیوں خاموش ہے، ہماری نسل کُشی پر۔
جس طرح وسعت اللّہ ایک کالم میں لکھتا ہے کہ شاید دُنیا میں پہلا واقعہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے، حالانکہ بلوچ اور پشتوں دونوں اقلیت میں ہیں اب یہ دونوں اس قوم کے ساتھ کیسے رہنگے۔
پنجاب اس وقت تک بلوچ اور پشتون قومی تحریک آزادی کا ساتھ نہیں دیتا جب تک اُسے قوم اور قومیت سمجھ میں نَہ آئے۔
شاید جس وقت پنجاب کے لوگ اس اندھے حُب الوطنی سے نکل کر یہ سوچنے لگ جائیں قوم اور قومیت اور قومی سوال سب سے اہم ہے تو اس وقت دُنیا بہت آگے نکل چُکی ہوگی۔
جب 2019 میں law college university of sargodha میں میرا ایڈمیشن ہوا تو چند دن بعد ایک کلاس فیلو نے مجھ سے بلوچستان کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ میں نے سُنا ہے کہ بلوچستان میں را (انڈیا) بدامنی پھیلا رہا ہے اور وہاں بلوچستان کے کئی ایسے بھی علاقے ہیں جہاں انڈیا(ہندوستان) کے جھنڈے لگے ہوئے ہیں۔
مجھے افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کے وہ الفاظ یاد آگئے کہ
اِنسان پیدائشی طور پر کسی سے نفرت نہیں کرتا نفرت کرنا اُسے سکھایا جاتاہے والدین سکھاتے ہیں اسکول کی کتابیں سکھاتی ہیں میڈیا سکھاتا ہے ورنہ انسان کی فطرت تو محبت کرنا ہے۔
لیکن تین سال گُزرنے کے باوجود یہ الفاظ یہ سوالات مجھے یونیورسٹی میں ہمیشہ ملتے ہیں کہ بلوچستان میں جو ہورہا ہے سب کچھ انڈیا کے ایماء پر ہورہا ہے، (لیکن آج تک کسی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا کہ وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ کیوں لاپتہ ہیں؟ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ پاکستانی تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبہ کو کیوں حراساں کیا جاتا ہے؟
کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بلوچستان میں سوئی سے نکلنے والے سوئی گیس کے باوجود بلوچستان کو گیس نہیں مل رہا آج تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ حب ڈیم بجلی پیدا کرکے پھر انکو کیوں کراچی بھیج دیا جاتا ہے؟ ہاں البتہ یہ بات مجھے بار بار یاد دلایا گیا کہ آپ لوگوں کو یہاں فری ایجوکیشن دی گئی ہے، لیکن اب تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ گوادر سی پیک کی مرکز ہونے کے باجود وہاں کے مقامی لوگ پانی کی بوند کیلئے تِرس رہے ہیں، پنجاب میں ہم سے وہی سوالات پوچھے گئے ہیں کہ وہ قابض کے زبان کے سوالات تھے) لیکن آج تک کسی بھی پنجابی نے یہ نہیں دیکھا ہوگا کہ بلوچستان کو چھاؤنستان بنایا گیا ہے ہر ایک کلومیٹر پر ایک ایف سی یا آرمی چوکی آپ کو نظر آتی ہے ہر چیک پوسٹ پر آپ کو الگ سے انٹری کرنا پڑتا ہے ( اس کے بعد یہ سوال کہ بلوچستان میں انڈیا مداخلت کررہا ہے حالانکہ انڈیا کا زمینی روٹ بلوچستان سے نہیں پنجاب سے ملتا ہے ) اگر اَتنے چوکیوں کے باوجود وہاں جو شورش ہورہا وہ جنگ کامیابی کے ساتھ ہورہا ہے تو یہ آپ کی فوج کی ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
ایسے ہزاروں سوالات مجھ جیسے نابالغ ذہنیت میں ابھر کر ڈر کی وجہ سے اپنی موت آپ مرجاتے ہیں، لکھنے پڑھنے بولنے سوال پوچھنے(اس قدر پابندی لگائی قابض نے ) کی تمام تر قدرتی صلاحیتیں پالش کرنے کے بعد اپنی موت آپ مرکر ہمیشہ کیلئے اِنسان ایک روبورٹ بن کر اپنی آقا کی اشاروں پر چلنے لگتا ہے۔
برطانیہ نے دُنیا پر راج کرنے کیلئے ہر خطے میں کسی ایک قوم کو ہمیشہ متنازعہ بنایا ہے جیسا کہ برصغیر میں بلوچستان اور کشمیر کو مڈل ایسٹ میں فلسطین کو۔ در اصل ان علاقوں کو متنازعہ اس لئے بنایا تاکہ وہاں کی سرزمین کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرو اور آج؟
لیکن اب یہ ان تمام ممالک کے عوام کو اور خاص طور پر نوجوان نسل کو طے کرنا ہے کہ کیا کرینگے، اسلئے لینن نے کہا تھا کہ نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہیں لیکن لینن نے ایک اور بات کہا تھا کہ برف کو پگھلانے کیلئے سورج کی شعائیں چاہئے (اسکا مطلب یہ ہوا کہ قوم کے نوجوانوں کو علم اور قومی شعور ہونا چاہئے) لیکن مجھے دوسرے ملکوں کے ایجوکیشن سسٹم کے بارے میں اتنا علم نہیں ہے اور پاکستانی تعلیمی نظام انسان کو ذہنی طور پر اپاہج کردیتی ہیں، اور ذہنی طور پر اپاہج لوگ کچھ نہیں کرسکتے ہیں، اس وقت پاکستان کی تعلیم نظامی نے ملک کے نوجوانوں کو ذہنی طور پر اس قدر اپاہج کردیا ھیکہ وہ پیسہ اور لڑکی کے سوا اور کچھ سوچ نہیں سکتے۔
پاکستان میں ٹیکسٹ بورڈ کی کتابوں کو اس قدر سنسر کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی ذہن کو مفلوج کردیتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کو حقیقت میں دیکھنے کی کوشش کریں ہر اس کتاب اور رائیٹر پر پابندی لگی ہوئی ہے جس میں سچائی ہو، جیسا کہ حالیہ ایک دو سال کی بات ہے یہ کمپنی نہیں چلے گی ایک ہی رات میں بین ہوگئی، محمد حنیف کی کتاب mango اور عائشہ صدیقی کی کتاب خاکی کمپنی اور حُسین حقانی کی کتاب pakistan between mosque and malitiry اور کے کے عزیر کی کتاب the murder of history اور ایسے سینکڑوں ہزاروں کتابیں ہونگے جو مجھ جیسے ادنیٰ طالب علم نے نہیں پڑھے ہیں۔
لیکن اس ملک کی تعلیمی نظام اور پنجاب کی نوجوانوں کو دیکھ کر یہ نہیں لگتا یہاں قوم اور قومیت کو سمجھنے والا کوئی ہوگا ، اس قوم کے پروفیسروں کو دیکھکر یہ نہیں لگتا کہ یہاں کوئی سوال کرنے والا یا شعوریافتہ طالب نکلے۔ المیئے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی قوم کے نوجوان نسل(یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس) لائبریری میں PUBG کھیلنے آجائے تو یہ آپ خود طے کریں کہ اس قوم میں احساسات کہاں سے جنم لیتی ہیں، اس قوم میں قومی سوال اور حق خود داریت کو کون سمجھے؟ اس قوم کے نوجوانوں کو تاریخ فلسفہ وغیرہ میں کیسے دلچسپی ہوگی، اور مظلوم اقوام پر کیسے ترس آئیگا۔
جہاں تک میری رائے ہے کہ پنجاب سے گِلہ شکوہ بیکار ہے کیونکہ یہاں احساسات نام کی کوئی چیز ہی نہیں، اور پنجاب اس وقت اس قدر مذہب کی جکڑ میں پھنس چُکا ہے کہ اس سے نکلنا بہت مشکل ہے۔
یہ قوم اب تک یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہے کہ 70 سالوں سے کشمیر کا نام لیکر ملک کی ستر فیصد بجٹ کھانے والوں نے اب تک کشمیر کو آزاد نہیں کیا اور نہ کشمیری لوگوں کو کوئی ریلف دی اور ہر کشمیر ڈے پر کوئی گانا ریلز کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔
اس قوم سے کیا گِلہ کیا شکوہ اب تک یہ کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ پاکستان جمہوریہ ملک ہے اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو اس ملک پر بلاواسطہ 40 سال تک جنرلوں نے حکمرانی کی اور اب بِالْواسطَہ حکمرانی کررہے ہیں۔۔۔ اس قوم سے کیا گلِہ کیا شکوہ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں