پاکستان یا مسخّستان؟
تحریر: نائل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اے پی ایس کا ماسٹر مائنڈ عمر خالد خراسانی بم دھماکے میں ہلاک، کسی بھی تنظیم یا پارٹی کی ماسٹر مائنڈ کے ہلاکت کے بعد شاید تنظیم کمزور پڑ جائے، مجھے ایسا نہیں لگتا، کیونکہ نئے آنے والا زیادہ چالاک اور مدبر ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی تنظیم یا پارٹی کا فرد کسی یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہوتو وہ عام طلباء سے ہزار درجہ بہتر دکھائی دیتا ہے، اسلئے جنرلوں نے اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی عائد کی اور آج تک پابندی ہی پابندی لگی ہوئی ہے، وہ پابندی اب زبان سے لیکر سوچ تک کامیابی سے لگی ہوئی ہے، اور کسی جنرل نے کہا کہ ہوٹلوں میں سیاسی بحث مباحث سے گریز کریں اور آج تک کسی بھی ہوٹل میں جاؤ تو آپ کو یہ الفاظ ضرور ملیں گے، لیکن جنرلوں سے زیادہ اس پابندی کو اب یونیورسٹی انتظامہ بخوبی انجام دے رہی ہے۔
پاکستان کا نام تبدل کرکے مسخستان رکھ دیتے تو صحیح ہوتا کیونکہ یہاں ہر چیز کو آسانی سے مسخ کردیا جاتا ہے۔
شاید آج پشتون قوم کیلئے اے پی ایس کا ماسٹر مائنڈ ہلاک ہوگیا ہو لیکن حقیقت اس سے کوسوں دور ہے، پاکستان نے ہر چیز کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے، چاہے بلوچ، سندھی، پشتوں کی تاریخ ہو یا پاکستان کی تاریخ یا پاکستان کی تعلیمی نظام ہو سارے مسخ کئے گئے ہیں۔
16 دسمبر 1971 کو جب پاکستانی آرمی کے 95000 ہزار فوجیوں نے بنگلہ دیش کے درالحکومت ڈھاکہ میں سرینڈر کیا، اس کے بعد پاکستانی جنرل کرنل میجر عوام کو منہ دیکھانے کے لائق نہیں رہے لیکن 20 ویں صدی کے لوگ یہ تاریخی واقعات چاہیں بھی بھول نہیں سکتے لیکن نئے جنریشن کو ان چیزوں کے بارے میں اتنا علم نہیں کیونکہ مطالعہ پاکستان میں اب تک یہ چیز پڑھا ہی نہیں ہے۔
16 دسمبر 1971 کو مسخ کرنے کیلئے 16 دسمبر 2014 کریٹ کرنا پڑا، اب لوگوں کی بڑی تعداد نے 16دسمبر 1971 کو بھول کر 16دسمبر 2014 کو یاد کرینگے اور آنے والے وقتوں میں یہ دن ہمیشہ کیلئے یاد رکھا جائیگا۔
حیرت کی بات ہے نا کہ ایک آرمی اسکول پر ایسا کامیابی کے ساتھ حملہ کرنا آرمی چوکیوں کے بیچ میں، یہ اک قسم کی رسوائی ہے اس فوج کے جنرل یہ کہتے ہوئے تھکنے کا نام ہی نہیں جانتے کہ پاکستان فوج اور آئی ایس آئی دُنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے بلوچ قومی تقافت، تاریخ اور تہذیب روندنے کیلئے برطانیہ کے کہنے پر بلوچستان پر قابض ہوا لیکن خود ہمیشہ کیلئے برطانیوی غلامی کو بھول گیا اور اسی کی عوض میں جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو اسی کے روک تھام کیلئے امریکہ نے پاکستان کو یہ یقین دلایا کہ آپ اب بھی ہمارے ٹکڑروں پر پلنے والے کُتے کی طرح ہو۔ سوشلزم کو برصغیر میں آنے نہیں دینا کیونکہ اس سے پہلے جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے روس کے خلاف اسرائیل کو مظبوط کرکے سوشلزم کی راہ میں رکاوٹ بنایا اور وہاں عرب ممالک کو اپنے مقصد میں استعمال کیا اور ناصر کمال جیسے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے کئی عرب شہزادوں کو لالچ مراعات پیش کرکے کئی کو اسلح فنڈنگ کی تاکہ روس یعنی سوشلزم کی حامیوں کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کردیں اور امریکہ سامراج ایک حد تک کامیاب رہا، اور جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو پاکستانی جنرلوں کا نمک کا حق ادا کرنے کا وقت آگیا تھا ان کیلئے طالبانیزیشن بنایا گیا اور اسی آگ میں 100000 ایک لاکھ کے قریب شہری اپنی جان کی بازی ہار گئے اور پاکستانی جنرل لکھ پتی سے کھرب پتی بن گئے باہر کی ملکوں میں 20000 تنخواہ والوں نے جزیرے خریدنا شروع کردیئے۔
طالبان، داعش، یا ٹی ٹی پی ہو ان تمام تنظیموں کی لیڈر لگژری زندگی گُزار رہے ہیں اور ان کے بچے باہر کی یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں اور غریب پشتوں کی بچے ان کیلئے ایندھن کا کام کررہے ہیں پاکستانی جنرلوں سے لیکر تمام دھشتگرد تنظیموں کی لیڈر تک سارے امریکہ کے غلام ہیں اور ان کے ٹُکروں کے پلے چل رہے یا باقی عوام بھاڑ میں گئی.
سی آئی اے کے اک سابقہ آفیسر Robert L grenier اپنی کتاب
88 Days to Kandahar: A CIA Diary
میں ایسے بہت سے چیزوں کا ذکر کرتا ہے، کچھ ایسے چیزوں کا انکشاف کرتا ہے، وہ حد سے زیادہ سنگین اور اس قوم اور فوج کیلئے لعنت سے کم نہیں ہے۔
شاید پاکستان کی عوام وہ عوام جو پاکستان کو مانتی ہے ان لوگوں کیلئے شاید ماسٹر مائنڈ مارے گئے ہیں لیکن با شعور بلوچ اور پشتوں کیلئے گُڈ طالبان سے لیکر بیڈ طالبان تک سارے کے سارے پاکستانی جنرل اور میجرز ہے اور کوئی نہیں، بلوچ اور پشتوں قوم کے ساتھ کچھ ایسے وقعات رونما ہوئے ہیں وہ بلوچ اور پشتوں تاریخ میں ہمیشہ سیاہ باب کی طرح یاد رکھے جائینگے۔
جب اگست 2016 میں بلوچستان بار کونسل کے صدر بلال انور کاسی پر قاتلانہ حملے کے بعد انکی شہادت سے لیکر اور 8 اگست 2026 ایڈوکیٹ حضرات پر یہ خودکش دھماکہ کوئی حادثات نہیں تھے، بلکہ یہ سارے پالیسیاں جی ایچ کیو راولپنڈی سے پاس ہوکر کوئٹہ کینٹ پر پہنچ کر اور کوئٹہ شہر میں عملی جامہ تک پہچ پاتے ہیں ، سینکڑوں چوکیوں میں چیکنگ کے باوجود یہ خوش حملہ آور کامیابی کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ کر کامیابی کے ساتھ خود کو دھماکہ خیز مواد کے ساتھ اُڑا کر بلوچ قوم کی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہمیشہ کیلئے ہم سے چھینا گیا۔
1947 سے لیکر آج تک پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے بلوچ پڑھے لکھے طقبہ کو برداشت نہیں کیا، پاکستانی اسٹبلشمنٹ جب 2009 میں خضدار میں بلوچ گوریلہ کا سامنا نہ کرسکا تو اس نے شفیق مینگل جیسے لوگوں کو ٹشوز پیپر کی طرح بلوچ کے خلاف مسلح کرکے سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بلوچ دانشور طبقات کو نشانہ بنایا۔
لیکن اب بلوچ پاکستان کی ہر اس عمل سے واقف ہے جو راولپنڈی کی بند کمروں سے ہوکر آتے ہیں۔ ہمارے لئے طالبان خراساں جماعت الاحرار کے بانی اور ماسٹر مائنڈ راولپنڈی میں بیٹھے ہوئے پاکستانی جنرلز اور میجرز ہیں کوئی اور نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں